وہ موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتا تھا اور اس کی بیوی کو نیند میں چلنے کی عادت تھی۔ وہ جب سارا دن موٹرسائیکل چلا چلا کر تھکا ہارا گھر آکر سوجاتا تو رات کے کسی پہر اس کی بیوی جاگ جاتی اور اس کی جیبوں کی تلاشی لینے لگتی۔

اسد علی بازی گر کی آنکھ کھل جاتی لیکن وہ بیوی کو کچھ نہ کہتا کہ اسے کسی نے بتایا تھا کہ سوتے میں چلتے ہوئے انسان کو جگا دینے سے اس کی یادداشت ختم ہوسکتی ہے، سو وہ ڈر جاتا اور بیوی کا ہاتھ آہستگی سے پکڑ کر پھر چارپائی پر بٹھا دیتا کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے اس کی یادداشت ختم ہوجائے۔

سرکس میں موجود موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے سے کئی سال پہلے وہ صرف سڑکوں پر موٹرسائیکل چلایا کرتا تھا اور شہر میں کون تھا جو اس کے ساتھ ریس لگا سکتا کہ وہ موٹرسائیکل پر بیٹھتے ہی ہوا سے باتیں کرنے لگتا تھا۔

پھر ایک دن اس کے گاؤں میں سرکس والے آئے، اور جب وہاں اسد نے موت کے کنویں میں بازی گر کو موٹرسائیکل چلاتے دیکھا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ پیدا ہی اسی کام کے لیے ہوا ہے، اور آج اسے زندگی کا مقصد مل گیا ہے۔ سب یار دوست واپس چلے گئے اور وہ بازی گر رحمت علی کی شاگردی میں چلا گیا۔

مزید پڑھیے: افسانہ: پاگل پن کا قانون

اس کے باپ نے اسے گھر سے نکال دیا۔

‘یہ کوئی کام ہے بھلا؟ موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاؤ اور پھر کسی دن گِر کر مرجاؤ، اگر تم نے یہی کچھ کرنا ہے تو اس گھر کو چھوڑنا ہوگا’۔

اس نے گھر چھوڑ دیا کیونکہ اس کے دل میں موت کا کنواں بس گیا تھا اور وہ کئی سالوں سے گاؤں گاؤں، شہر شہر یہی کرتب دکھا رہا تھا۔

صفیہ جسے اب نیند میں چلنے کی بیماری ہے، ایک بار اپنی سہیلیوں کے ساتھ سرکس دیکھنے آئی اور اسد کا کرتب دیکھ کر دل دے بیٹھی اور جب صفیہ نے اسے بتایا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے، اور اس سے پہلے کہ اس کا سرکس اس شہر سے کہیں اور جائے اسے رشتے کے لیے اس کے گھر آنا ہوگا۔

وہ حیران رہ گیا تھا کہ بھلا ایک موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والے سے کون محبت کرسکتا ہے؟ لیکن صفیہ کو اس سے محبت ہوگئی تھی۔ رحمت علی جو اس کا استاد تھا وہ اس کے رشتے کے لیے صفیہ کے گھر گیا تھا۔

صفیہ کا باپ عِطر فروش تھا اور اس نے رحمت علی کو کہا ‘موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانا ایک بے حد خطرناک کام ہے جس میں کسی بھی وقت آدمی کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ وہ بھلا اپنی بیٹی کی شادی کسی ایسے شخص سے کیسے کرسکتا ہے؟

صفیہ نے یہ بات سنی تو کھڑکی سے کہا ‘ابا جان! آدمی کی موت تو بیٹھے بیٹھے، چلتے پھرتے، سوتے جاگتے بھی ہوسکتی ہے۔ میں صرف اسی سے شادی کروں گی’۔

عِطر فروش بیٹی کی اس بیباکی پر حیران رہ گیا۔

‘وہ دراصل میری بیٹی کو نیند میں چلنے اور باتیں کرنے کی عادت ہے، شاید یہ ابھی بھی نیند میں ہے’، انہوں نے بات کا رخ موڑنے کی خاطر رحمت علی سے یہ کہا تھا، لیکن اندر سے عِطر فروش اس قدر ڈر گیا تھا اور سچ تو یہ تھا کہ جب سے صفیہ پیدا ہوئی تھی وہ اس سے ڈرا ہوا ہی تھا۔

‘میرے خیال میں ہمیں بچوں کی خوشی کو دیکھنا چاہیے، مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں‘، عِطر فروش نے کہا۔

اس بار جب اسد علی بازی گر اس شہر سے دوسرے شہر گیا تو اس کے ساتھ صفیہ کی محبت بھی تھی، ابھی وہ اس کو شہر شہر اپنے ساتھ لے کر نہیں جاسکتا تھا سو صرف اس کی محبت لے کر چل پڑا۔

پھر جب ایک سال بعد صفیہ کے شہر میں ایک پارک کی انتظامیہ نے موت کے کنویں کا کرتب دکھانا شروع کیا تو وہ وہاں کام کرنے لگا اور ایک مکان کرائے پر لے لیا۔

صفیہ کی بہت سی باتیں اسد علی بازی گر کو سمجھ نہ آتیں جیسے وہ رات کو اٹھ کر اس کی جیبوں کی تلاشی کیوں لیتی ہے؟ جب کبھی بلیاں گھر میں چیختیں تھیں تو وہ بھی ان کے ساتھ چیخنا چلانا شروع کردیتی۔ صحن میں لگے پودوں کو رات کے وقت پانی دیا کرتی تھی اور سب سے عجیب بات جو اسد علی کو محسوس ہوتی وہ یہ کہ جب کبھی وہ گھر آتا تو صفیہ صحن میں بیٹھی چھری کو تیز کررہی ہوتی۔

مزید پڑھیے: افسانہ: لمحوں میں اترا بڑھاپا

‘یہ چھری کی دھار ہر روز کُند کیسے ہوجاتی ہے؟’، اسد علی بازی گر حیران ہوکر پوچھتا۔

‘ہوجاتی ہے، سارا دن گزر گیا ہے چھری تھک گئی ہوگی’۔

‘چھری بھی تھک جاتی ہے؟’

‘ہر شے تھک جاتی ہے’

کئی بار وہ صبح اٹھتا تو دیکھتا کہ صحن میں کوئی بلی مری ہوئی پڑی ہے۔

‘صفیہ یہ بلی یہاں کیسے آگئی؟’

‘مجھے کیا معلوم’۔

اسے صفیہ کی باتیں سمجھ نہیں آتیں کہ یہ بھلا کیسی باتیں کرتی ہے، لیکن اسد بازی گر کو صفیہ سے محبت تھی اور اس کے بغیر دنیا بہت تنہا اور ویران تھی، سو وہ اس کی الٹی سیدھی باتیں اور حرکتیں نظرانداز کردیتا تھا۔

‘ہم گاڑی کب لیں گے؟’، ایک روز صفیہ نے اس سے پوچھا۔

‘گاڑی؟’

‘میں تو ایک غریب بازی گر ہوں، میں بھلا گاڑی کیسے خرید سکتا ہوں میری اتنی سکت نہیں‘۔

‘موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے کے تو لاکھوں روپے ملنے چاہئیں کہ یہ کتنا خطرناک اور شاندار کام ہے’، صفیہ نے کہا۔

‘ہاں مگر لوگ اسے کوئی کام نہیں سمجھتے’۔

‘تو تم گاڑی کب لو گے؟’

‘دیکھو یہ میرے بس سے باہر کی بات ہے’۔

‘لیکن ہم تو گاڑی ضرور لیں گے، سمجھے؟ اور میرا اس چھوٹے سے کرائے کے مکان میں دم گٹھتا ہے، ہمیں جلد ہی کوئی اور مکان خریدنا ہوگا’۔

‘لیکن میں تو ...‘

صفیہ اس کی بات نہ سنتی اور صحن میں جاکر چھری تیز کرنے لگ جاتی۔

کئی بار موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے چلاتے ٹائر پنکچر ہونے کی وجہ سے یا کبھی کبھار لکڑی کے تختے کا بیلنس درست نہ ہونے کی وجہ سے وہ گر کر زخمی بھی ہوچکا تھا۔

اس کے زخمی ہونے پر صفیہ بے حد خوش ہوتی اور ٹوٹی ہڈیاں دیکھ کر کہتی کہ ‘تم ٹائیگر ہو، فلموں کے ہیرو بھی چوٹیں لگنے سے نہیں گھبراتے، تمہیں خوش ہونا چاہیے۔ تم ہیرو ہو’۔

‘لیکن میری بازو کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے، میں ہنس نہیں سکتا، سچ پوچھو تو مجھے رونا آرہا ہے’، وہ درد کی شدت میں کہتا۔

‘خبردار جو تم نے ایسا کہا’، صفیہ یکدم غصے میں آجاتی۔

وہ چھوٹی موٹی چوٹوں اور بیماریوں میں فوراً ٹھیک ہوجاتا کہ صفیہ چند دنوں بعد اسے بُرا بھلا کہنے لگ جاتی کہ تم ہیرو ہو، یوں بیمار نہیں پڑے رہ سکتے۔

لیکن ایک بار وہ ایسا گرا کہ اس کی ٹانگ ہی ٹوٹ گئی۔ پارک کی انتظامیہ نے اس کے علاج کا خرچ اٹھایا اور اسے نقلی ٹانگ لگوا دی، اور اب وہ موٹرسائیکل چلانے کے قابل نہیں رہا تھا، سو اس نے ایک ریڑھی خریدی اور سبزی بیچنا شروع کردی۔

پارک میں اب اس کا شاگرد کامران موٹرسائیکل چلانے لگ گیا تھا، جو کبھی کبھار اس کی خیریت پوچھنے گھر آجاتا۔

ان دنوں صفیہ نے اس سے بات کرنا چھوڑ دی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی سبزی فروش سے بات نہیں کرسکتی۔

‘سبزی فروش بھی تو انسان ہوتے ہیں‘، اسد نے اسے سمجھایا۔

‘مجھے نہیں معلوم، تمہیں موٹرسائیکل ہی چلانا چاہیے’۔

مزید پڑھیے: افسانہ: اختتام

‘لیکن اب میری ایک ٹانگ نقلی ہے اور ویسے بھی حادثے سے چند روز پہلے مجھے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے سے خوف آنے لگا تھا۔ دراصل جیسے ہی رفتار 70 سے 80 کی جانب بڑھتی تھی تو میرا فوکس ٹوٹنے لگتا تھا، پہلے ایسا بالکل نہیں ہوتا تھا۔ میں جب موٹرسائیکل پر بیٹھتا تو مجھے سب کچھ بھول جاتا تھا، لیکن اب میری توجہ دوسرے مسائل کی طرف رہنے لگی تھی شاید اسی لیے میں اس قدر خوفناک انداز میں گرا تھا اور میری ٹانگ ٹوٹ گئی’، اس نے جواب دیا۔

‘جو مرضی ہو، تمہیں یہی کرنا ہوگا، میں کسی سبزی فروش کے ساتھ نہیں رہ سکتی، تم ہیرو ہو یہ کیا گلی گلی سبزی بیچ رہے ہو’۔

‘مگر میری ٹانگ ...‘

‘میں اب تم سے کوئی بات نہیں کروں گی’، صفیہ نے فیصلہ سنا دیا تھا۔

اسد علی سبزی فروش کی صحت دن بدن گرنے لگی تھی، وہ دمے کا مریض ہوگیا تھا اور رات کو بعض اوقات اسے دمے کا اٹیک بھی ہوجاتا، اس لیے وہ اپنا اِن ہیلر ہمیشہ اپنے سرہانے رکھ کر سوتا تھا۔

صفیہ کی نیند میں چلنے کی بیماری بھی بڑھ گئی تھی۔ ‘اسد علی سابقہ بازی گر موجودہ سبزی فروش’ ساری ساری رات جاگ کر اسے دیکھتا رہتا۔ دراصل اب اسے صفیہ سے خوف آنے لگ گیا تھا کیونکہ وہ رات کو اٹھ کر چھری تیز کرنے لگ جاتی تھی اور جیسے ہی بلیاں چیختیں وہ ان کے ساتھ چلانے لگتی۔

ایک رات اسد علی سبزی فروش کو دمے کا اٹیک ہوا لیکن اس کا اِن ہیلر اسے نہ مل سکا اور وہ ایسے ہی گہرے سانس لیتا لیتا چل بسا۔ صفیہ اس وقت باہر بلیوں کے ساتھ چیخ رہی تھی۔

کئی روز بعد جب یہ مکان خالی ہورہا تھا تو سامان اٹھانے والے لڑکوں کو ڈسٹ بِن سے ایک اِن ہیلر بھی ملا تھا۔

صفیہ نے کامران سے شادی کرلی جو موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتا ہے اور رات تھکا ہارا گھر آتا ہے تو اسے سمجھ نہیں آتی کہ اس کی بیوی نیند میں اٹھ کر اس کی جیبوں کی تلاشی کیوں لیتی ہے اور پھر یہ منحوس بلیاں۔

تبصرے (0) بند ہیں