بھارت نے علی ایکسپریس سمیت مزید 43 چینی ایپس پر پابندی لگادی

25 نومبر 2020
چینی سفارت خانے  نے اس پابندی کی بھرپور مخالفت کی ہے — فوٹو:رائٹرز
چینی سفارت خانے نے اس پابندی کی بھرپور مخالفت کی ہے — فوٹو:رائٹرز

بھارتی حکومت نے لداخ کے معاملے پر چین کے ساتھ کئی ماہ سے جاری کشیدگی کے باعث علی بابا گروپ ہولڈنگ کی ای-کامرس ایپ علی ایکسپریس سمیت مزید 43 چینی موبائل ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کردی۔

اس حوالے سے بھارت کی وزارت ٹیکنالوجی نے ایک بیان میں کہا کہ یہ 43 چینی ایپلی کیشنز جن میں کچھ ڈیٹنگ ایپس بھی شامل ہیں، بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔

خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق بھارت میں موجود چینی سفارت خانے نے اس پابندی کی بھرپور مخالفت کی ہے لیکن علی بابا نے فوری طور پر اس معاملے پر جواب نہیں دیا۔

یہ اقدام چینی کمپنی علی بابا کے لیے ایک اور بہت بڑا دھچکا پے جو بھارتی فنانس ٹیک فرم پے ٹی ایم کی سب سے بڑی سرمایہ کار ہے اور گروسر بگ باسکٹ کی بھی حمایت کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت میں پب جی سمیت مزید 118 چینی ایپس پر پابندی

رواں برس نئی دہلی میں 59 چینی موبائل ایپس پر پابندی کے بعد اس کی ماتحت کمپنی یو سی ویب نے اپنے عملے کی تعداد میں کمی کی تھی۔

خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے باعث چینی ٹیک جائنٹ کو بھارتی کمپنیوں میں سرمایہ کاری نہ کرنے پر بھی مجبور کیا گیا تھا۔

دوسری جانب چین نے بھارت سے ان ایپس پر سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے، چینی وزارت خارکہ کے ترجمان نے بھارت پر عالمی تجارت کے قوانین کی خلاف ورزی اور چینی کمپنیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا۔

چین نے کہا کہ انہیں اس اقدام اور بھارت کے قومی سلامتی کو برقرار رکھنے کے نام نہاد بہانے سے متعلق شدید تحفظات ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارت کو دوطرفہ تعاون کو اس سے بھی بڑے نقصان سے بچاؤ کرنے کے لیے امتیازی سلوک کے ان طریقوں کو فوری طور پر ختم کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ جون میں بھارت نے چین سے تعلق رکھنے والی 59 ایپس بشمول ٹک ٹاک، یو سی براؤزر، وی چیٹ اور بیگو لائیو پر پابندی لگائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ٹک ٹاک سمیت چین کی 59 ایپلی کیشنز پر پابندی

بھارت نے چین کی ایپلی کیشنز کو ملکی خودمختاری، سالمیت، دفاع اور امن و امان کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس پابندی کا اعلان کیا تھا۔

بعدازاں جولائی میں بھارت نے مزید 47 ایپلی کیشنز پر پابندی عائد کی تھی جن کے بارے میں بتایا جارہا تھا کہ یہ گزشتہ بند کی جانے والی ایپلی کیشنز کی کلون ایپلی کیشنز تھی۔

خیا ل رہے کہ 2015 سے 2019 کے دوران چینی کمپنیوں بشمول علی بابا اور دیگر نے بھارتی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں ساڑھے 5 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔

واضح رہے کہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے مابین 15 جون کو ہونے والے تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

امریکا کی خلائی ٹیکنالوجی کمپنی میکسار ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ وادی گلوان کے ساتھ چینی تنصیبات نظر آرہی ہیں۔

مزید پڑھیں : سرحدی علاقے میں چین سے جھڑپ، افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک

آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مصنوعی سیارہ ڈیٹا کے ماہر نیتھن روسر نے کہا تھا کہ اس تعمیر سے پتا چلتا ہے کہ کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

یہ وادی گلوان اور دریائے شیوک کے سنگم پر شروع ہوتی ہے اور دونوں فریقین جس لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو باضابطہ تسلیم کرتے ہیں، وادی میں ان دریاؤں کے سنگم کے مشرق میں واقع ہے۔

چین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور یہ 45 سال کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سب سے خونریز جھڑپ ہے۔

دوسری جانب چین دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ بھارت میں واقع ہے جس کے جواب میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کا 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ چین کی حدود میں اکسائی چن کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں