پرانے لاہور کا حصہ ہونے کی وجہ سے مزنگ بازار کی تنگ گلیاں اپنے اندر کئی کہانیاں رکھتی ہیں۔ اس بازار میں کئی چھوٹی چھوٹی دکانیں موجود ہیں جہاں مچھلی اور مرغی سے لے کر پان اور تمباکو بھی مل جاتا ہے۔ یہاں آپ کو ایک چارپائی بننے والے کے ساتھ پکوڑے بیچنے والا بھی نظر آئے گا۔

طرح طرح کی خوشبوؤں اور آوازوں کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی مطلوبہ دکان کے سامنے سے گزر جائیں اور اس دکان پر آپ کی نظر ہی نہ پڑے۔ میں جب اس بازار میں مجاہد تاج دین نان بیکرز کی تلاش میں تھا تو میرے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہوا۔

میں نے واپس پلٹ کر ناصرف وہ تندور ڈھونڈ لیا بلکہ اس کی طویل تاریخ اور روایت بھی جانی۔ تندور کے مالک سکندرِ اعظم اس کاروبار میں تیسری نسل ہیں۔ اپنے نام کے برخلاف بہت ہی نرم طبعیت کے مالک سکندر نے ہمیں بتایا کہ پاکستان میں اس دکان کی ایک تاریخ ہے جو قیامِ پاکستان سے بھی پرانی ہے۔ ’اگرچہ دکان کے حجم سے اندازہ نہیں ہوتا لیکن ہمارا تندور پاکستان کے بڑے تندوروں میں سے ایک ہے‘۔

اس تندور کا نام ان کے والد مجاہد تاج دین کے نام پر رکھا گیا ہے۔ سکندر نے ای او ایس کو بتایا کہ ’میرے دادا جلال دین نے یہ کام 1850ء کی دہائی میں شروع کیا تھا، ہمارا تعلق ایک روایتی لاہوری خاندان سے ہے اور ہمارے اجداد بھی اسی پرانے شہر میں پیدا ہوئے اور یہیں رہے‘۔

لاہور کا روایتی قیمہ نان
لاہور کا روایتی قیمہ نان

دیکھنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس دکان نے اپنی قدیم بنیادوں کو قائم رکھا ہوا ہے۔ اس دکان کی صرف ایک مرتبہ مرمت ہوئی تھی اور وہ بھی 1960ء کی دہائی میں۔ سکندر کا کہنا ہے کہ ’ہمارے خاندان کے پاس یہ جگہ ملکہ وکٹوریا کے عہد سے ہے۔ دکان کی پرانی چھت لکڑی اور اینٹوں کی بنی ہوئی تھی لیکن 1964ء میں اس کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا‘۔

سکندر جہاں بیٹھتے ہیں وہاں ان کے دادا کی ایک تصویر بھی لگی ہوئی ہے جس میں وہ دکان پر کام کرنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تصویر ان کی وفات سے صرف 8 دن پہلے لی گئی تھی، اس وقت ان کی عمر 133 سال تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی اس تندور کی دیکھ بھال کر رہے ہوں۔

سکندر نے ہمیں بتایا کہ ’دادا جی ایک تاجر تھے۔ وہ گندم خرید کر بازار میں بیچا کرتے تھے۔ بعد میں انہوں نے دالیں، روٹی اور کلچے بھی بیچنا شروع کردیے۔ اس وقت 5 کلچے صرف 2 آنے اور 5 نان صرف 4 آنے میں مل جاتے تھے‘۔ سکندر ہم سے بات بھی کر رہا تھے اور تازہ نان پر گھی لگا کر خریداروں کو بھی دے رہے تھے۔

دکان کے مالک سکندرِ اعظم
دکان کے مالک سکندرِ اعظم

اگرچہ جلال دین کی یہ دکان اب بھی قائم ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلیاں ضرور ہوئی ہیں۔ اس تندور میں اب تندوری روٹی، سادہ نان اور کلچے فروخت نہیں ہوتے۔ یہاں اب کم سے کم نان بھی روغنی نان ملے گا۔ یہاں کے مشہور نان میں بیف، چکن اور مٹن قیمہ نان، آلو بھرے نان، بیسن کا نان، خشخاش سے بنا میٹھا نان (جو ایک مہینے تک تازہ رہتا ہے) اور گلبہار نان (آرڈر پر تیار ہونے والا نان جو پھلوں کے مربوں اور خشک میووں سے بنتا ہے) شامل ہیں۔

سکندر کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے دکان سنبھالنے کے بعد 1930ء کی دہائی میں یہ بھرے نان متعارف کروائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ موجودہ پاکستان میں پہلی بار ان کے والد نے ہی یہ خاص نان متعارف کروائے تھے۔

’میرے والد نے نوعمری میں ہی اپنے والد کے ساتھ دکان پر آنا شروع کردیا تھا۔ جب تقسیم سے ایک دہائی قبل انہوں نے دکان سنبھالی تو موجودہ پاکستان میں صرف ہم ہی روغنی اور قیمہ بھرے نان بناتے تھے۔ اس سے پہلے لوگ صرف سادہ نان اور کلچوں سے ہی واقف تھے۔ میرے والد کاروبار کو پھیلانا اور اس میں جدت لانا چاہتے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے نئی چیزیں متعارف کروائیں۔ اُس وقت قیمہ بھرے نان کی قیمت 12 آنے تھی‘۔

تندور سے نکالا گیا گرم گرم نان: تصویر بشکریہ مرتضیٰ علی
تندور سے نکالا گیا گرم گرم نان: تصویر بشکریہ مرتضیٰ علی

یقیناً ان کے والد نے اپنے پیچھے ایک میراث چھوڑی ہے۔ ہماری بات چیت کے دوران ایک نوجوان خریدار دکان پر آیا اور اس نے قیمے والے نان کا آرڈر دیا۔ ساہیوال کا رہائشی شیخ اشعر اس تندور پر پہلی مرتبہ آیا تھا لیکن وہ اپنے مقامی رشتہ داروں کے گھر اس تندور کے نان کئی مرتبہ کھا چکا تھا۔

اشعر نے ہمیں بتایا کہ ’میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اس مرتبہ اس دکان پر ضرور آؤں گا۔ میں نے حال ہی میں فیس بک پر ان کی ویڈیو دیکھی تھی اور میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کس طرح یہ خاص نان بناتے ہیں۔ میرے گھر والے کئی دہائیوں سے یہاں سے نان خریدتے آرہے ہیں۔ میں نے کبھی اس نان سے زیادہ عمدہ قیمے والا نان نہیں کھایا‘۔

ان کے گاہک صرف عام لوگ نہیں ہیں۔ انہوں نے سرکاری دورے پر آئے ہوئے غیر ملکی مندوبین اور شالیمار باغ اور قلعے پر ہونے والی تقاریب کے لیے بھی نان بنائے ہیں۔

سکندر نے ہمیں بتایا کہ ’بھٹو عہد میں جب پاکستان نے او آئی سی کے اجلاس کی میزبانی کی تھی تو ہمیں مہمانوں کے لیے نان تیار کرنے کا آرڈر ملا تھا۔ اسی دور میں ہم نے ایوانِ صدر میں ہونے والی کئی تقاریب کے لیے بھی نان تیار کیے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں پنجاب ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا، اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ میں اپنے والد اور کچھ ملازمین کے ساتھ اسلام آباد گیا تھا‘۔

مجاہد تاج دین نان بیکرز مزنگ کی تنگ گلیوں میں موجود ہے
مجاہد تاج دین نان بیکرز مزنگ کی تنگ گلیوں میں موجود ہے

سکندر نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے صدر فضل الہٰی چوہدری کی جانب سے برطانوی وزیرِاعظم کو دیے گئے عشائیے کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے دیکھا کہ مہمانوں نے ہمارے نان کی تعریف کی، ہمیں بعد میں تعریفی سرٹیفیکیٹ بھی ملے‘۔

جو چیز ان کے نان کو منفرد بناتی ہے وہ اس کی خستگی اور ہلکا پن ہے۔ سکندر کا کہنا تھا کہ ’اس کا راز خمیر بنانے کی ہماری ترکیب اور نان میں ڈالے جانے والے مصالحے میں ہے اور یہ ترکیب میرے والد نے بنائی تھی۔ وہ ترکیبیں آج تک تبدیل نہیں ہوئی ہیں اسی وجہ سے لوگ دُور دُور سے یہ نان خریدنے آتے ہیں۔ کچھ پرانے گاہک تو کئی سالوں بعد صرف یہ نان خریدنے واپس آئے اور انہوں نے اس کے معیار کی بھی تعریف کی‘۔

سکندر کا کہنا تھا کہ ’میرے والد نے مجھے ہدایت کی تھی کہ کبھی بھی نان کے معیار اور ترکیب پر سمجھوتا مت کرنا۔ اگر تمہیں معیار برقرار رکھنے میں مشکل ہو تو ’خدا حافظ‘ کا بینر لگا کر دکان بند کردینا۔ ہم نان میں استعمال ہونے والا خمیر خود تیار کرتے ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ جتنے بھی نان کھالیں آپ کا پیٹ گڑبڑ نہیں کرے گا۔ ہم اس بات کی تسلی کرتے ہیں کہ ہمارے تیار کیے ہوئے مصالحے بچے اور بڑے دونوں ہی کھا سکیں اور ہضم بھی کرسکیں‘۔

تازہ نان پر گھی لگا کر خریداروں کو دیے جارہے ہیں: مرتضی علی
تازہ نان پر گھی لگا کر خریداروں کو دیے جارہے ہیں: مرتضی علی

صرف یہ دکان ہی نصف صدی کے عرصے سے جلال دین کی میراث کو آگے نہیں بڑھا رہی بلکہ کچھ ملازم بھی یہ کام کر رہے ہیں۔ سکندر نے ایک ملازم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اورنگزیب یہاں تقریباً 55 سال سے کام کر رہا ہے، یہ جب پہلی مرتبہ دکان پر آیا تھا تو اس کی عمر کوئی 14 یا 15 سال کے قریب تھی۔ اس نے سب کچھ یہیں پر سیکھا ہے۔ یہ تقریباً میری ہی عمر کا ہے‘۔

جلال دین کی اپنے ملازمین کے ساتھ تصویر آج بھی دکان پر لگی ہوئی ہے
جلال دین کی اپنے ملازمین کے ساتھ تصویر آج بھی دکان پر لگی ہوئی ہے

کورونا وبا اور اس کے بعد لگنے والے لاک ڈاؤن نے تندور مالکان کو بھی متاثر کیا، جو لوگوں کو بنیادی خوراک فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن سکندر کے لیے مشکلات اس سے پہلے ہی شروع ہوگئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب سے یہ حکومت آئی ہے ہمارا کاروبار، بلکہ ہر کاروبار نقصان کا ہی شکار ہوا ہے۔ طلب کم ہوگئی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا سے متعلق ہر کام متاثر ہوا ہے۔ یہاں تک کے ساتھ کی دکان میں بیٹھا قفل ساز بھی مشکلات کا شکار ہے۔ جب لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی آتی ہے تو گاہک اور کاروباری افراد سب ہی پریشان ہوتے ہیں‘۔

لیکن دوسری طرف سکندر اس بات پر خوش بھی ہیں کہ ان کے پرانے گاہک آج بھی انہی سے نان خریدتے ہیں چاہے وہ لاہور کے کسی بھی علاقے میں منتقل کیوں نہ ہوجائیں۔ ’اگر ہمارے گاہک دُور دراز علاقوں میں منتقل بھی ہوجائیں تو وہ پھر بھی ہماری دکان پر آتے ہیں یا فون پر آرڈر دے دیتے ہیں۔ جو لوگ ملک سے باہر جاچکے ہیں وہ جب بھی وطن واپس آتے ہیں تو ہماری دکان پر ضرور آتے ہیں۔ ہر سال محرم پر ہمیں ایک گھر سے بیسن کے خاص نان کا آرڈر ملتا ہے۔ یہ نان عام دنوں میں بہت زیادہ مقبول نہیں ہیں کیونکہ یہ عام نان سے مختلف ہوتے ہیں، حال ہی میں ہمارے ایک پرانے گاہک جو فیصل آباد منتقل ہوگئے ہیں یہاں آئے تھے اور وہ بیف نان لے گئے تھے جو وہ عرصے سے کھا رہے تھے‘۔

سکندر کا دعویٰ ہے نوجوان ’فاسٹ فوڈ نسل‘ بھی ان کے نان کی دیوانی ہے۔ اک پرانی گاہک روبیہ مغیث نے ہمیں بتایا کہ ان کے گھر والے کئی دہائیوں سے یہاں کے گاہک ہیں۔ ’میرے خیال سے ہمارے گھر والے یہاں سے کم از کم 30 سال سے نان خرید رہے ہیں۔ یہ نان گھر کی ہر پکنک اور ماضی میں ہونے والے بسنت کے تہوار کا لازمی جز تھے اور ہیں۔ گوشت کا معیار اور مصالحوں میں توازن ان کی خاصیت ہے اور اتنے سالوں میں ان کا معیار بھی برقرار رہا ہے‘۔


یہ مضمون 20 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں