پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی ریاستی دہشت گردی سے متعلق پیش کیے گئے ڈوزیئر کو عالمی برادری بہت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔

انگریزی نیوز ویب سائٹ گلوبل ولیج اسپیس (جی وی ایس) کو دیے گئے ایک انٹریو میں جب ان سے پاکستان میں بھارتی معاونت سے دہشت گردی سے متعلق ڈوزیئر پر عالمی سطح پر ردعمل سے متعلق سوال کیا گیا تو ڈی جی آئی اسی پی آر کا کہنا تھا کہ 5 اگست 2019 کو جب بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت واپس لی گئی تو اس کے بعد سے پریس میں بھارت کو بہت منفی ردعمل ملا۔

مزید پڑھیں: بھارتی جنگی قیدی ابھی نندن سے متعلق بیان میں تاریخ مسخ کی گئی، میجر جنرل بابر افتخار

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو پاکستانی حکومت کی جانب سے بہت اچھی طرح حمایت کی گئی اور اسے مختلف عالمی فارمز پر اٹھایا گیا تاہم جب یہ ڈوزیئر آیا تو یہ اس سب کی صداقت تھی جو پاکستان ایک طویل عرصے سے کہہ رہا تھا، اس میں بھارتی ریاستی معاونت سے پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی کے تمام ثبوت پیش کیے گئے جبکہ بھارتی کوششوں کے باوجود عالمی برادری کی جانب سے اس ڈوزیئر کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا اور وہ اس پر بات کر رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے عالمی سطح پر اس ڈوزیئر کے مواد پر کی جانے والی بحث ایک بڑی پیش رفت ہے اور ہم اسے آگے لے کر جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ڈویزیئر کے پیش کیے جانے کے بعد دفتر خارجہ نے اسے پی-5 کے سامنے پیش کیا جبکہ اسے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی پیش کیا گیا، مزید یہ کہ آپ نے اب او آئی سی کے فارم سے بھی ایک سخت بیان دیکھا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بیان دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اسے ہر ممکنہ فورم پر لے کر جائیں گے اور اس سلسلے میں بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔

سی پیک خطے کی خوشحالی کا منصوبہ

سی پیک سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک خطے کے لیے گیم چینجرز ہے اور یہ پورے خطے کو جوڑنے کی پیشکش کرتا ہے اور اس سے پاکستان پورے خطے کے لیے رابطے کا مرکز ہوگا جبکہ اس منصوبے میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ سب کو جوڑ کر اس خطے میں خوشحالی لائے گا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ بنیادی طور پر ایک اقتصادی منصوبہ ہے جب ہی اس کا نام چین پاکستان اقتصادی راہداری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میجر جنرل آصف غفور کا تبادلہ، بابر افتخار نئے ڈی جی آئی ایس پی آر تعینات

سی پیک کو بھارت سے لاحق خطرات سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے اور اس کے اطراف بہت زیادہ دہشت گردانہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں جبکہ یہ عجیب اعتراضات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ یہ کہاں سے شروع ہوگا اور کہاں ختم ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ لہٰذا اس منصوبے اور اس کے مختلف مراحل کے اطراف سیکیورٹی کے خطرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں اور کہیں نہ کہیں بھارتیوں نے فیصلہ کیا کہ ایک ٹائم لائن ہے جس کے بعد اس منصوبے کا رخ بدل جائے گا اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے پر پیش رفت میں جتنا ممکن ہو کمی لائیں تاکہ یہ ٹائم لائن کو عبور نہ کرسکے۔

ایک سوال کہ کیا آپ یہ کہہ رہے کہ بھارتی خطے کی خوشحالی کے خلاف ہیں اور وہ اس وجہ سے سی پیک کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو اس کے جواب میں بابر افتخار کا کہنا تھا کہ کیونکہ وہ اس منصوبے میں پیش رفت کے خواہاں نہیں ہیں تو اس وجہ سے وہ یہاں یہ سب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈوزیئر میں افغانستان میں دہشت گرد کیمپوں سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہماری افغان قیادت سے بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ہمارا پورا ایک میکانزم ہے لیکن ہم ہمیشہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغان حکومت کے استعداد کار کے مسائل ہیں اور اس وجہ سے ہم کبھی براہ راست افغان حکومت کو ان کی سرزمین سے ہونے والے واقعات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے، تاہم ہم ان سے معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں اور یہ معمول کی بات ہے اور اسی طرح جو چیز ڈوزیئر میں ہیں وہ بھی ان سے شیئر کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت 500 رافیل بھی لے آئے، ہم تیار ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ہم نے سی پیک کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی کے لیے 2 ڈویژن بنائے ہیں، اس کے علاوہ ہم نے مختلف علاقوں جہاں سے یہ منصوبہ گزر رہا ہے 8 سے 9 رجمنٹس کو تعینات کیا ہوا ہے جبکہ اسی کے ساتھ ساتھ پیراملٹری دستے بھی تعینات ہیں اور ہم اس منصوبے کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں اور ہمارے چینی شراکت دار بھی سیکیورٹی اقدامات سے مطمئن ہیں۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ جب سی پیک کو ہدف بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اصل میں یہ پاکستان کی بین الاقوامی تصویر کو ہدف بناتے ہیں، اس منصوبے پر حملے کے لیے جو دہشت گرد استعمال ہو رہے وہ مسلسل اس منصوبے میں شامل چینی افرادی قوت کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے، یہ اس منصوبے پر کام کرنے والے مقامی مزدوروں کو نشانہ بناتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے خلاف مختلف اقسام کے سیکیورٹی خطرات ہیں لیکن اللہ کے کرم سے ہم نے اقدامات اٹھائے ہیں، یہ اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کے قابل نہیں ہیں اور ہم اپنے اقدامات میں مزید بہتری کر رہے ہیں۔

جدوجہد آزادی کشمیر کو دہشتگردی سے جوڑنے کی بھارتی کوشش

ایل او سی پر بھارتی اشتعال انگریزی اور گرینڈ ڈیزائن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ڈیزائن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے اندر کیا ہورہا ہے، میں اس پر بات نہیں کروں گا کہ وہاں کیا ہورہا ہے کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے، تاہم جہاں تک بھارت کے زیر تسلط کشمیر کی بات ہے تو بھارت مسلسل آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کررہا ہے اور اس سلسلے میں سیز فائر کی خلاف ورزیوں میں جو شدت آرہی ہے وہ آپ دیکھ رہی ہیں۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 2019 اور 2020 میں بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی اور میرے خیال سے ان دو برسوں میں سب سے زیادہ اموات بھی ہوئی ہوں گی، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ بھارت آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا چاہتا ہے اور دہشت گردی کو پاکستان سے نام نہاد دراندازی سے جوڑنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ ہم میڈیا، سفارتکاروں کو لائن آف کنٹرول کے دورے پر لے کر گئے جہاں انہوں نے خود دیکھا کہ لائن آف کنٹرول سے کسی قسم کی دراندازی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہاں انہوں نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ بہت زیادہ فوج تعینات کی ہوئی ہے اور آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور ایل او سی پر بھی ان کی تعیناتی کو دیکھا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان کی مکمل فوج 6 لاکھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'آپریشن ردالفساد میں دہشت گردوں سے 46 ہزار مربع کلومیٹر خالی کرایا گیا'

بابر افتخار کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی مقامی سیاسی قیادت بھی یہ کہہ چکی ہے کہ اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو وہ دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ کیوں ہے؟

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بھارت ان جنگ بندی کی خلاف ورزی سے یہ حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ دنیا کی توجہ پاکستان کی طرف کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ پاکستان کی دراندازی اور سرحد کے اس پار سے آئے دہشت گردوں کی وجہ سے ہورہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ بالکل جھوٹ ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین گروہ موجود ہیں اور یہ پاکستان میں ہر جگہ جاتے ہیں اور آخری مرتبہ جب سفرا کے وفد کو لائن آف کنٹرول لے کر گیا تھا تو میں نے انہیں بتایا کہ اس وقت وہ جس جگہ موجود ہیں اس سے متعلق بھارتی فوج کے سربراہ نے کہا کہ یہاں لانچنگ پیڈ اور 250 کے قریب لوگ موجود ہیں جو بھارت میں دراندازی کرنا چاہتے ہیں، یہ بالکل ایک پروپیگنڈا ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ (بھارت) جانتا ہے کہ چاہے وہ ہم پر فائر کریں یا ہم انہیں جواب دیں دونوں طرف کشمیریوں کو ہی نقصان پہنچے گا اور وہ پاک فوج اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ رہنے والی آبادی کے درمیان دراڑ کھینچنا چاہتے ہیں۔

دوران گفتگو نگروتا واقعے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ بھارت تناؤ کو بڑھانے کے لیے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتا ہے اور فالس فلیگ آپریشن اس کا معمول ہے۔

مزید پڑھیں: 'افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن و امان ہے'

اس پر خاتون اینکر کی جانب سے جب پوچھا گیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نگروتا واقعہ فالس فلیگ تھا تو اس پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ انہیں اس میں کیا ثبوت ملا؟ کیا انہوں نے دنیا کے ساتھ اسے شیئر کیا؟ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ جو بھی بھارتی زیر تسلط کشمیر میں ہوتا ہے وہ انکار کی حالات میں ہوتا ہے۔

پاکستان خطے کے حالات معمول پر رکھنے کا خواہاں

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف پاکستان نے جب موجودہ حکومت آئی تو کہا کہ آپ ایک قدم بڑھائیں، ہم 2 بڑھائیں گے اور ہم نے ہمیشہ حالات معمول پر لانے کی کوشش کی ہے اور ہمیں خطے میں حالات کو معمول پر رکھنے کی ضرورت ہے۔

بابر افتخار کا کہنا تھا کہ سب کو معلوم ہے پاکستان اور بھارت کی استعداد کیا ہے اور یہ ایک پیٹرن ہے کہ دنیا میں جب بھی کچھ بڑا ایونٹ آنے والا ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہے جو پاکستان کو دہشت گردی سے جوڑ دیتا ہے۔

ففتھ جنریشن وار فیئر

دوران گفتگو میزبان نے سوشل میڈیا پر پاکستان اور پاک فوج سے متعلق غلط معلومات اور جعلی خبروں، خاص طور پر حالیہ دنوں کراچی میں خانہ جنگی سے متعلق ٹوئٹر ٹرینڈ، ففتھ جنریشن وار فیئر کے حوالے سے سوالات پوچھے جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ ہوتا ہے تاہم اس سے نمٹنے کا بہتر حل شفافیت ہے، اس سے نمٹنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ معتبر معلومات کو آگے پہنچائیں اور ہم یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم نے سوشل میڈیا کے ان اکاؤنٹس کا پتا لگانے کی کوشش کی تو اس میں سے زیادہ تر بھارتی اکاؤنٹس تھے، بدقسمتی سے بڑے حملے ففتھ جنریشن وار فیئر کا بڑا حصہ ہیں اور پاکستان کو ہائبرڈ ایپلی کیشنز کے ذریعے بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہم اس سے آگاہ ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا کے خلاف بہترین دفاع آئسولیشن سے زیادہ باہمی تعاون ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

ففتھ جنریشن وار فیئر سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم اس خطرے کی بات کرتے ہیں تو میری نظر میں ففتھ جنریش وار فیئر میں بھارتی ریاست اپنی قومی طاقت کے تمام عناصر کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں مخصوص ڈومین غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان ڈومین میں پاکستان کی معیشت، انفارمیشن سسٹم، فوج اور بین الاقوامی تصویر ہے، ساتھ ہی انہوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لیے کے لیے بھارتی لابنگ کی مثال کا حوالہ دیا۔

کراچی میں ہونے والے حالیہ واقعے کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ عمارت میں ہونے والے اس واقعے کو بھارت میں ’خانہ بندی‘ کے طور پر پیش کیا گیا جو غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ کی ایک مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی حرکت سے بھارتی میڈیا اپنی ساکھ کھوچکا ہے اور پوری دنیا اس کو تسلیم کر رہی ہے۔

'باڑ لگانے کا عمل مجموعی طور پر بہت کامیاب رہا'

آئی ایس پی آر کے سربراہ نے مغربی سرحدوں پر باڑ لگانے سے متعلق پاکستان کی جاری کوششوں پر بھی بات کی۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ باڑ لگانے کا عمل مجموعی طور پر بہت کامیاب رہا اور 'افغان سرحد کا 83 فیصد جبکہ ایران کی جانب 30 فیصد سرحدی حصے میں باڑ لگانے کا کام کامیابی سے ہمکنار ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کام دسمبر 2021 تک مکمل ہوجائےگا۔

یہ بھی پڑھیں: 'احسان اللہ احسان سے متعلق مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات قطعاً بے بنیاد ہیں'

انہوں نے کہا کہ پاکستان ان کوششوں کا فائدہ پہلے ہی اسمگلنگ اور سرحد پار سے غیر قانونی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں کمی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ 'میں فیصد کی بات نہیں کروں گا لیکن واقعات اور ہلاکتوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ایک نیا بارڈر مینجمنٹ ڈویژن تشکیل دیا گیا ہے جو پاکستان میں زمینی، سمندری اور ہوا سے تمام داخلی مقامات کا مرکزی انتظام کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ 'بارڈر مینجمنٹ پاکستان کو محفوظ بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے'۔

کووڈ 19 کوششیں

میجر جنرل بابر افتخار نے پاکستان میں جاری کووڈ 19 سے بچاؤ اور اس میں فوج اور سول اداروں کی خدمات کو سراہا۔

انہوں نے لاک ڈاؤن کو لاگو کرنے اور ملک بھر میں عوامی آگاہی مہم میں فوجی دستوں کی تعیناتی سے متعلق گفتگو کی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے انٹرویو کے اختتام پر میڈیا کی تعریف کی جس نے عوام کو کووڈ 19 سے متعلق آگاہی دی۔

تبصرے (0) بند ہیں