بھارت: اترپردیش میں 'لو جہاد' قانون کے تحت 10 مسلمان گرفتار

اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2020
اس قانون کے تحت دوسروں کو زبردستی یا شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے والوں کو قید کی سزا کاٹنی ہوگی — فائل فوٹو / اے ایف پی
اس قانون کے تحت دوسروں کو زبردستی یا شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے والوں کو قید کی سزا کاٹنی ہوگی — فائل فوٹو / اے ایف پی

شمالی بھارت میں پولیس نے مبینہ طور پر شادی کے بعد مبینہ طور پر خواتین کو مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور کرنے والے 10 مسلمانوں کو گرفتار کر لیا۔

حکام کے مطابق ان افراد کو انسداد مذہب تبدیلی قانون المعروف 'لَو جہاد' (Love Jihad) قانون کے تحت گرفتار کیا گیا۔

گزشتہ ماہ اترپردیش بھارت کی وہ پہلی ریاست بن گئی تھی جس نے زبردستی یا دھوکے سے مذہب تبدیلی کے خلاف قانون منظور کیا تھا۔

اس قانون کے تحت دوسروں کو زبردستی یا شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے والوں کو قید کی سزا کاٹنی ہوگی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق انسداد مذہب تبدیلی قانون میں کسی مذہب کا نام شامل نہیں، تاہم ناقدین نے اسے اسلام مخالف قرار دیا جسے صرف 'لو جہاد' روکنے کے مقصد کے لیے نافذ کیا گیا ہے جسے سخت گیر ہندو گروپس ہندو خواتین کو محبت اور شادی کے وعدوں کے ذریعے بہکا کر مسلمان بنانے کی سازش قرار دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ویب سیریز میں مسلم لڑکے و ہندو لڑکی کا رومانس دکھانے پر بھارت میں تنازع

بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کے حکام نے کہا کہ اس قانون سے دھوکے کے ذریعے مذہب تبدیل کرانے کے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی، جبکہ یہ قانون جوان سالہ خواتین کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔

بھارت میں وفاق اور اترپردیش میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں ہیں۔

چار سینیئر پولیس عہدیداران کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے اترپردیش کے مختلف حصوں سے 10 افراد کو الگ، الگ شکایات پر گرفتار کیا گیا، جو والدین نے درج کرائی تھیں اور الزام لگایا تھا کہ ان کی بیٹیوں کو مسلم مردوں نے مبینہ طور پر اغوا کیا۔

ایک پولیس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ 'ہم نئے قانون کو صرف ان مردوں کو گرفتار کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں جن کے خلاف ہمارے پاس جبری مذہب تبدیل کرانے کے پختہ ثبوت ہیں'۔

مزید پڑھیں: بھارت: ہندو لڑکی کو مسلمان گھرانے کی بہو دکھانے کے اشتہار پر تنازع

اس نئے قانون کے تحت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مرد اور خواتین کو شادی سے دو ماہ قبل ضلعی مجسٹریٹ کو نوٹس دینا ہوگا جس کے بعد انہیں کوئی اعتراض نہ ہونے کی صورت میں شادی کی اجازت دی جائے گی۔

واضح رہے کہ بھارت کی دیگر چار ریاستیں مدھیا پردیش، ہریانہ، کرناٹکا اور آسام بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ وہ بھی اسی طرح کے انسداد مذہب تبدیلی قوانین لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں