فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/104521822" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


اپنا  شہر جو یوں تو زیادہ تر اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے، لیکن لوگ ابھی بھی اسے روشنیوں کا شہر کہتے ہوئے شرماتے نہیں۔ میٹرو پولیٹن شہر کا درجہ اور بجٹ رکھنے والا یہ شہر اس سفید پوش کے گھر کی طرح ہے کہ جس کی حقیقت ایک ہی بارش سے ظاہر ہوجاتی ہے۔

اوپر اوپر سے یہ آجکل کے سفید پوشوں کی طرح جتنا جدید اور ماڈرن  دکھائی دیتا ہے اندر سے اتنا ہی غربت کا مارا ہے۔ سارا اوپر کا رنگ روغن اور میک اپ، بارش کے دو چھینٹے جو پڑیں تو اندر چھپا ہوا چہرہ، لجاتا شرماتا ظاہر ہوجاتا ہے۔

ایک طرف بڑے بڑے پلازہ ہیں تو دوسری طرف شاپنگ مال۔ دن بدن ان کی تعداد میں اظافہ ہوتا جارہا ہے۔ تو ان  پلازوں اور بڑی بڑی عمارتوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی ہیں جو خودرو پودوں کی طرح اچانک نمودار ہوجاتی ہیں۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.

جیسے یہ عمارتیں بڑھ رہی ہیں ایسے ہی یہ چھوٹی بستیاں بھی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں کہ چھوٹی بستیوں کے باسیوں کی مدد کے بغیر بڑی عمارتوں کے رہنے والے کچھ  بھی کر نہیں پاتے۔  اور شہر ہے کہ ایسے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔

ففٹی ففٹی گاؤں غربت اور پسماندگی ہے کہ گاؤں گوٹھوں سے شہروں کی طرف رواں دواں ہے۔ اب شہر بڑھتے اور گاؤں گھٹتے جارہے ہیں، ففٹی ففٹی پر تو آ ہی پہنچے ہیں۔ جن غریبوں کو  امیروں کی طرح لوٹنے کے گر نہیں آتے وہ  شہروں میں آکر بھی غریب ہی رہتے ہیں۔ لیکن یہاں اتنا تو کما ہی لیتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ اگر وہ بھی نصیب نہ ہو تو شہر میں قائم غریب اور نادار لوگوں کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے والے سینٹرز کی لائن میں لگ کر پیٹ کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.

جیسے جیسے بڑی عمارتیں اور چھوٹی بستیاں بڑھ رہی ہیں ویسے ہی کاریں بھی بڑھ رہی ہیں، بسیں اور منی بسیں جو ملک کے باقی شہروں اور چھوٹے چھوٹے علاقوں میں چل چل کر تھک جاتی ہیں تو ان ٹوٹی پھوٹی ناکارہ  بسوں اور منی بسوں کو کراچی کے  راستوں کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔

اب ایک طرف تو وہ ہیں جو کاروں میں بیٹھتے ہیں اور دوسرے وہ جو صرف بسوں میں ہی بیٹھ سکتے ہیں، اگر اندر نہیں تو چھت پر ہی بیٹھ کر سفر کرلیتے ہیں۔ تیسرے بے چارے وہ ہیں جن کی  مجبوری رکشہ ٹیکسی ہے کہ نا ہی کار نصیب میں ہے اور نا ہی بس میں بیٹھنے کی ہمت۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.

باقی کے جو بچتے ہیں وہ موٹر سائیکلوں پر دندناتے پھرتے ہیں۔ ٹریفک والا تو بیچ سڑک پر حواس باختہ کھڑا رہتا ہے کہ اگر کوئی صاحب لوگ کی گاڑی گذرے تو سلام ماردے یا اگر کوئی شکار ہتھے چڑھ جائے تو چائے پانی کا بندوبست ہوجائے۔

سڑکیں ہیں کہ سکڑتی جا رہی ہیں کہ دن بدن گاڑیوں کی بڑھتی تعداد اب فٹ پاتھوں پر قبضہ کرنے کے بعد سڑکوں، گلی کوچوں، خالی پلاٹوں اور گٹروں پر بھی پارک ہورہی ہیں۔

جس کو ہم فٹ پاتھ کہتے ہیں اس پر ویسے تو پہلا حق پیدل چلنے والوں کا ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ بھی بڑی بڑی گاڑیوں سے سج گئے ہیں یا پھر اگر کہیں خالی رہ گئے ہیں تو اس پر موٹر سائیکل والے جو ہمیشہ جلدی میں ہوتے ہیں وہی گزرتے دکھائی دینگے۔ پیدل جو ہے وہ بے چارہ گاڑیوں کے بیچ چلتا نظر آتا ہے کہ بغیر اسٹیرنگ کے بھی بھاگتا پھرتا ہے اور گاڑی والے سے بھی پہلے اپنی منزل کو پہنچا ہوتا ہے۔

کہنے کو تو ٹریفک لائٹس بھی لگی ہیں یہاں تک کہ کیمرے بھی لگے ہیں، لیکن قوم اتنی جلدی میں ہوتی ہے کہ یہ قانون شانون کے بکھیڑے میں  نہیں پڑتی۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ آبھی جائے تو لے دے کے جان چھڑالیتی ہے کہ کون چالان بھرے گا، یہیں مک مکاؤ کرلیتے ہیں۔ ویسے یہ مک مکاؤ والے بھی صبح سے ڈیوٹی اسی لیے سنبھالتے ہیں کہ اس مک مکاؤ پر ہی ان کا گذارہ ہے۔ تنخواہ تو ویسے بھی نام کی ہوتی ہے۔ صرف تنخواہ والے کو تو گھر میں گھسنے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔

مک مکا کرنے والے اور یہ مک مکاؤ کرنے والے صرف ٹریفک میں نہیں، اوپر سے نیچے تک جہاں بھی نظر ڈالینگے یہی نظر آئینگے۔ سب یہاں کمانے کے لیے آئے ہیں۔ افسر ہو یا  کلرک، پولیس، رینجرز یا عرف عام میں قانون نافذ کرنے والے۔ کراچی  میں دولت کے دریا بہہ رہے ہیں اور ہر آنے والا جو ملک کے جس کونے سے بھی آیا ہو یا پھر یہیں کا ہو اسےاپنی  اپنی حیثیت کے مطابق اپنا حصہ چاہیئے، وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر!

دن رات سب اسی میں لگے رہتے ہیں کہ 'میرا حصّہ' کہاں ہے۔ اس حصّے داری میں کبھی ایک دوسرے سے لے دے کے جان چھڑاتے ہیں یا پھر جانوں پہ جانیں لیے جاتے ہیں۔ اتنی جانیں روز جاتی ہیں کہ اب اخبار بھی صرف سکور چھاپنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.

ایک زمانہ تھا کہ یہاں آجکل کے مسلمانوں کی زبان میں کافروں کی حکومت تھی۔ عیسائیوں اور ہندوؤں کا اس شہر پر راج تھا تب سڑکیں روز پانی سے دھلتی تھیں،  جب اونٹ گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں چلتی تھیں لیکن روڈ راستے گندگی سے صاف ہوتے تھے۔ اور جب یہ میٹروپولیٹن شہر بنا تو گندگی کا ڈھیر بنتا چلا گیا۔ ابلتے ہوئے گٹر، ٹوٹے پھوٹے راستے اور گندگی کے ڈھیر  ویسے تو پسماندہ علاقوں اور چھوٹے شہروں کی پہچان ہیں۔ لیکن اس میٹروپولیٹن کہلانے والے شہر میں سب سے زیادہ  دکھائی دینگے۔

ایک آنکھ سے جدید، دوسری آنکھ سے کھنڈر اس شہر کوایک آنکھ سے دیکھیں تو جدید، دوسری آنکھ سے دیکھیں تو لگتا ہے کسی پرانے دور میں آگئے ہیں۔ لیکن پرانے دور میں بھی صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اب تو میں نے اپنا کچرہ دوسرے کے گھر کے آگے ہی پھینکنا ہے۔

سب اپنے گھر کو اندر سے تو ایسا سجاتے ہیں کہ لگتا ہے دنیا جہان کی خوبصورتی  صرف اپنے ہی گھر میں ہے۔ باہر دروازے پر آئیں تو گٹر کھلا ہے اور بدبو کے بھبھوکے اڑ رہے ہیں۔

آبادیوں پر آبادیاں بنتی جا رہی ہیں، لیکن بغیر کسی منصوبہ بندی کے. باقی کی سہولیات کیسے مہیا ہونگی؟ گیس پانی بجلی کہاں سے آئے گی؟ نکاسی آب کا کیا ہوگا؟ یہ سوال بعد کے ہیں۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.

ایک مسجد بنا کر کام شروع کردیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آبادی کھڑی ہوجاتی ہے۔ بیچنے اور خریدنے والے کہاں سے کہاں جا پہنچے، روزگار سب کا چل رہا ہے۔ کل جو جھونپڑی میں رہ رہا تھا وہ آج بنگلے میں ہے۔ باقی رہن سہن  اسی طرح کا ہے۔ اپنے گلی محلے کا کچھ پتہ نہیں۔ سب لے دے کے کام چلا رہے ہیں۔ صوبائی انتظامیہ ہو یا لوکل ایک دوسرے پر ہی ڈال کر جان چھڑا لیتے ہیں۔

بارشیں تو پہلے بھی ہوتی تھیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ آخر یہ کیسی بارش تھی کہ جس نے سب کے چہرے سے میک اپ اتار دیا۔ کوئی بھی ذمّہ لینے کے لیے تیار نہیں۔ نا بھتہ لینے والے کی ذمّہ داری ہے اور نا ہی ہزار قسم کے ٹیکس لینے والے کی۔ یہ تو سب اوپر والے کی مہربانی ہے۔ کسی کو بارش کے مزے لینے کی پڑی ہے تو کسی کو کیچڑ میں کھڑے ہوکر  تصویر کھنچوا کر اپنا حساب برابر کرنے کی۔ کوئی  دور بیٹھ کر بیان دے دیتا ہے کہ ہم ہوتے تو ایسا نہیں ہوتا۔

فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.
فوٹو -- خدا بخش ابڑو --.

جو ڈوب رہا ہے بریکنگ نیوز بنے گا جو ڈوب رہا ہے، جس کی دیوار گرگئی ہے، چھت بہہ رہی ہے، گھر میں پانی کھڑا ہے یا پھر اپنے کسی جگر کے ٹکڑے کو گنوا چکا ہے۔ وہ صرف کچھ دیر کے لیے بریکنگ نیوز بنے گا یا دوسرے دن کے اخبار کی سرخی۔ باقی سب یونہی چلتا رہے گا کہ ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی عادت نہیں. ویسے بھی، آگے کیا ہے وہ تو خدا ہی جانتا ہے۔ پھر اگلی بارش پر کسی کو بریکنگ نیوز اور اخبار کی سرخی بنتے دیکھیں گے۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں