Dawnnews Television Logo

نیوزی لینڈ: مساجد پر حملے کی تفتیشی رپورٹ عام کردی گئی

نیوزی لینڈ کے سیکیورٹی ادارے انتہاپسندوں پر نظر رکھے ہوئے تھے اور سفید فام بالادستی کے انتہاپسند نے حملہ کردیا، رپورٹ
اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2020 08:03pm

نیوزی لینڈ کی حکومت نے مارچ 2019 میں کرائسٹ چرچ شہر کی دو مساجد میں ہونے والے دہشت گردی کے بدترین واقعے کی اعلیٰ تفتیشی رپورٹ عام کردی۔

تقریبا 800 صفحات پر مشتمل انگریزی رپورٹ کو 10 ابواب میں شائع کیا گیا اور جلد ہی اردو سمیت دنیا کی دیگر 12 زبانوں میں بھی شائع کرکے عام کردیا جائے گا۔

مذکورہ رپورٹ نیوزی لینڈ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے اس بدترین واقعے کی تفتیش کے لیے بنائی گئی خصوصی تفتیشی کمیشن ’رائل کمیشن‘ نے جاری کی۔

’رائل کمیشن‘ کا اعلان نیوزی لینڈ کی وزیر اعطم جیسنڈر آرڈرن نے 25 مارچ 2019 کو کیا تھا اور یہ اعلان مساجد میں حملے سے محض 10 دن بعد کیا گیا تھا۔

دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے مساجد پر حملہ کیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز
دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے مساجد پر حملہ کیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز

کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر آسٹریلوی نژاد سفید فارم دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے 15 مارچ 2019 کو حملہ کرکے 51 نمازیوں کو شہید جب کہ متعدد کو زخمی کردیا تھا۔

سفاکانہ دہشت گرد کو اسی دن نیوزی لینڈ پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ مبینہ طور پر تیسری مسجد پر حملے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔

اگلے ہی روز دہشت گرد پر الزامات عائد کرکے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی تھی اور ایک سال تک قانونی کارروائی چلنے کے بعد رواں برس 27 اگست کو اسے نیوزی لینڈ کی تاریخ کی بدترین سزا سنائی گئی تھی۔

عدالت نے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، ساتھ ہی واضح کیا تھا کہ دہشت گرد کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کی کوئی مدت نہیں، دوسری معنوں میں اسے مرتے دم تک جیل میں رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اور اب مساجد میں دہشت گردی کے بدترین واقعے کی اعلیٰ تفتیشی رپورٹ کو بھی عام کردیا گیا، جس پر نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر میں بحث جاری ہے۔

اگرچہ رپورٹ میں مجموعی طور پر 10 ابواب ہیں، تاہم رپورٹ میں الگ ابواب بھی شامل ہیں اور رپورٹ میں دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کی زندگی کے جائزے سمیت نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے پس منظر پر بھی پیش کیا گیا ہے۔

دہشت گرد نے جمعے کے دن مساجد پر حملہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے پی
دہشت گرد نے جمعے کے دن مساجد پر حملہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے پی

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ رائل کمیشن نے کس طرح رپورٹ کی تفتیش کی اور دوران تفتیش کس طرح کے شواہد کا جائزہ لیا گیا۔

رپورٹ کے آخری و دسویں باب میں نیوزی لینڈ حکومت کو دہشت گردی کے ایسے واقعات کو روکنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں اور ان تجاویز کی تعداد 40 سے زائد ہے۔

ان تجاویز میں حکومت کو ایک ایسی منفرد خفیہ ایجنسی بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے جو لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ کر دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کو قبل از وقت روکنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

کمیشن کی رپورٹ میں نیوزی لینڈ میں سیکیورٹی اداروں کی کمزوریوں، اداروں میں پائی جانے والی نسلی و مذہبی تفریق کو بھی سامنے لایا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ جس وقت مسلمانوں پر حملہ ہوا، عین اسی وقت نیوزی لینڈ کی سیکیورٹی ایجنسیاں انتہاپسندی کی کھوج میں لگی ہوئی تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کے سیکیورٹی ادارے نام نہاد انتہاپسندوں پر نظر رکھے ہوئے تھے اور انہیں ہی خطرہ سمجھ رہے تھے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ مساجد پر ہونے والے حملوں کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نیوزی لینڈ کے سیکیورٹی اداروں اور پولیس نے سفید فام بالادستی کے انتہاپسندوں سمیت دیگر انتہاپنسدوں کو نظر انداز کیا۔

دہشت گردی کے واقعے میں 51 نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے—فائل فوٹو: اے پی
دہشت گردی کے واقعے میں 51 نمازی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے—فائل فوٹو: اے پی

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ نیوزی لینڈ کے سیکیورٹی اداروں نے مساجد پر حملے سے محض 8 منٹ قبل حملے کا انتباہ اس وقت جاری کیا جب دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے آن لائن میمو جاری کیا تھا اور اتنے کم وقت میں حملوں کو روکنا ناممکن تھا۔

رائل کمیشن کی یہ رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے جب کہ جلد ہی اس کے اردو سمیت دیگر 12 زبانوں کے ترجمے بھی عام کردیے جائیں گے۔

تفتیش کرنے والی ٹیم نیوزی لینڈ کی سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کام کر رہی تھی جب کہ اس میں متعدد ممالک میں خدمات سر انجام دینے والے سفیر، سیکیورٹی و خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام، سرکاری اعلیٰ عہدیدار اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

حکومت نے رائل کمیشن کا اعلان کرتے ہوئے عام لوگوں کو بھی دعوت دی تھی کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح تفتیش میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں تو وہ بھی کمیشن کا حصہ بنیں۔

مسلمانوں پر دہشت گردی کا شک کرنے پر جیسنڈا آرڈن کی معذرت

رپورٹ کو عام کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے 7 دسمبر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومتی غفلت اور غلطیوں کا اعتراف کیا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جیسنڈا آرڈرن نے پریس کانفرنس کے دوران رائل کمیشن کی رپورٹ پر بات کی اور کہا کہ حکومت کمیشن کی تجویز کے مطابق ایک خصوصی خفیہ ایجنسی کا قیام عمل میں لائے گی۔

جیسنڈا آرڈرن نے رپورٹ میں بتائی گئی اس بات پر مسلمانوں سے بھی معذرت کی کہ نیوزی لینڈ کے سیکیورٹی ادارے مسلمانوں پر دہشت گردی کا شک کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ باعث شرم ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیاں انتہاپسندوں پر نظر رکھتی رہیں اور سفید فام بالادست دہشت گرد نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔

جیسنڈا آرڈرن نے حکومتی غلطیوں پر معافی بھی مانگی—فائل فوٹو: رائٹرز
جیسنڈا آرڈرن نے حکومتی غلطیوں پر معافی بھی مانگی—فائل فوٹو: رائٹرز

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ میں ایسی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی کہ کس طرح مساجد پر حملے کو روکا جا سکتا تھا۔

جیسنڈا آرڈرن کے مطابق تاہم رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ایسا ادارہ ہوتا جو اس طرح کے واقعات پر نظر رکھتا تو عین ممکن ہےکہ واقعے کو روکا جا سکتا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی طرح وہاں کے حزب اختلاف کے سیاستدانوں سمیت مسلمانوں کی تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی رائل کمیشن کی رپورٹ پر بات کی ہے اور مسلم تنظیموں کے عہدیداروں کے مطابق رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں نسلی تفریق پائی جاتی ہے۔

مساجد پر حملے کے کیس میں کب کیا ہوا؟

دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ نے 15 مارچ 2019 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد النور مسجد اور لین ووڈ میں اندھا دھنگ فائرنگ کرکے 51 نمازیوں کو شہید اور کم از کم 50 کو زخمی کردیا۔

اسی دن پولیس نے دہشت گرد کو تیسری مسجد پر حملہ کرنے سے قبل گرفتار کرلیا۔

16 مارچ کو نیوزی لینڈ پولیس نے حملہ آور پر دہشت گردی اور قتل سمیت کئی الزامات عائد کیے۔

22 مارچ کو نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار نہ صرف سرکاری طور پر اذان نشر کی گئی بلکہ مسجد النور کے سامنے ہیگلے پارک میں نمازِ جمعہ کے اجتماع میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے علاوہ ہزاروں غیر مسلم افراد نے بھی شرکت کی۔

25 مارچ 2019 کو جیسنڈا آرڈرن نے دہشت گردی کے واقعے کی اعلیٰ سطح کی تفتیش کے لیے رائل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا۔

رائل کمیشن کی سربراہی سر ولیم ینگ نامی سپریم کورٹ کے جج نے کی—فوٹو: رائل کمیشن ویب سائٹ
رائل کمیشن کی سربراہی سر ولیم ینگ نامی سپریم کورٹ کے جج نے کی—فوٹو: رائل کمیشن ویب سائٹ

2 اپریل 2019 کو نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ نے فوجی طرز کے نیم خودکار (سیمی آٹومیٹک) بندوقوں اور رائفلز پر پابندی کا بل منظور کیا۔

5 اپریل 2019 کو دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ پر نیوزی لینڈ کے سرکاری وکلانے 49 قتل اور 39 اقدام قتل کے الزامات عائد کیے۔

21 مئی 2019 کو نیوزی لینڈ پولیس نے پہلی بار کسی شخص پر دہشت گردی کے سخت الزامات عائد کیے اور وہ مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ تھے، جن پر الزامات عائد کیے گئے۔

14 جون 2019 کو بیرنٹن ٹیرنٹن پر نیوزی لینڈ کی عدالت میں 92 ہی قتل اور اقدام قتل کے الزامات عائد کیے گئے مگر انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔

26 مارچ 2020 کو حیران کن طور پر بیرنٹن ٹیرنٹ نے تمام ہی الزامات کا اعتراف کیا۔

22 اپریل 2020 کو رائل کمیشن نے حکومت سے تفتیشی رپورٹ کی مدت جولائی تک بڑھانے کی اپیل کی۔

کمیشن نے حکومت کو ایک نئی خفیہ ایجنسی کے قیام کی تجویز بھی دی ہے—فائل فوٹو: اسٹف ڈاٹ کو
کمیشن نے حکومت کو ایک نئی خفیہ ایجنسی کے قیام کی تجویز بھی دی ہے—فائل فوٹو: اسٹف ڈاٹ کو

24 جولائی 2020 کو رائل کمیشن نے ایک بار پھر حکومت کو بتایا کہ رپورٹ جمع کروانے کی مدت نومبر تک بڑھائی جائے، کیوں کہ کورونا کی وجہ سے کچھ تفتیش نہیں ہوسکی۔

24 اگست 2020 کو نیوزی لینڈ کی عدالت میں بیرنٹن ٹیرنٹ کو سزا سنانے کے کیسز کی سماعتوں کا آغاز ہوا۔

27 اگست 2020 کو عدالت نے دہشت گرد کو عمر قید کی سزا سنائی، یہ سزا نیوزی لینڈ کی تاریخی اور بڑی سزا تھی، ساتھ ہی عدالت نے واضح کیا کہ دہشت گرد کی عمر قید سزا کی کوئی مدت نہیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مرتے دم تک جیل میں رہیں گے۔

26 نومبر 2020 کو رائل کمیشن نے اپنی رپورٹ نیوزی لینڈ کے گورنر جنرل کے سپرد کردی۔

8 دسمبر 2020 کو نیوزی لینڈ حکومت نے رائل کمیشن کی رپورٹ عام کردی اور اسی دن جیسنڈا آرڈرن نے رپورٹ میں مسلمانوں پر دہشت گردی کے شک کے تحت سیکیورٹی ایجنسیوں کی خصوصی نگرانی پر معافی بھی مانگی۔

9 دسمبر 2020 کو رائل کمیشن کی تفتیشی رپورٹ پر نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر میں بحث شروع ہوگئی۔

کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی ادارے مسلمانوں پر دہشت گردی کا شک کرتے رہے تھے—فائل فوٹو: اے پی
کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی ادارے مسلمانوں پر دہشت گردی کا شک کرتے رہے تھے—فائل فوٹو: اے پی