حفاظتی تدابیر پر اس طرح عمل نہیں ہو رہا جیسے پہلی لہر میں کیا گیا تھا، اسد عمر

اپ ڈیٹ 09 دسمبر 2020
وزیر منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر این سی او سی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وزیر منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر این سی او سی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر عوام نے کہا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر پہلی لہر کی طرح عملدرآمد نہیں ہو رہا اور اگر عوام نے احتیاط سے کام نہ لیا تو شاید ہفتے یا دو ہفتے بعد مزید شعبے بند کرنے پڑیں۔

اسد عمر نے اسلام آباد میں این سی او سی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ این سی او سی میں ہماری ذمے داری یہ نہیں ہے کہ ہم پیچھے کی طرف دیکھیں کہ کیا ہو چکا ہے، ہماری اولین ذمے داری یہ ہے کہ ہم آگے دیکھیں۔

مزید پڑھیں: وائرس میں تبدیلی کے ساتھ وبا کی دوسری لہر زیادہ مہلک ہونے کا خدشہ

انہوں نے کہا کہ قوم کی صحت اور روزگار کے دفاع کی ذمےداری سونپی گئی ہے این سی او سی کو جس کے لیے ہم تمام ڈیٹا سائنس کا استعمال کرتی ہے اور ماہرین صحت ان کی رائے کو اہمیت دیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے آگے کی طرف دیکھتے ہوئے کچھ سفارشات دیتے ہیں اور کچھ این سی سی کے لیے گزارشات کرتی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اکتوبر کے پہلے عشرے میں پوری دنیا تعریف کررہی تھی اور ہم باہر جاتا تھا تو لوگ مبارکباد دیتے تھے کہ مبارک ہو آپ نے کورونا پاکستان میں ختم کردیا اور ہر ایک کو بتانا پڑتا تھا کہ کم ہوا ہے، ختم نہیں ہوا ۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جو اعدادوشمار آنا شروع ہوئے اس پر ہم نے 12 اکتوبر کو این سی سی کے اجلاس کی درخواست کی جس میں سفارشات رکھیں کہ عوام کی جانب سے حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہمیں وبا کا پھیلاؤ بڑھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا ویکسین سے متعلق سازشی رجحان سے نجات کی ضرورت

انہوں نے کہا کہ 12 اکتوبر کے ہفتے میں مثبت کیسز کی شرح صرف 2فیصد تھی جبکہ پچھلے ہفتے یہ 8.7فیصد ہو چکا تھا، یعنی چار گنا کا کا اضافہ ہو چکا ہے۔

اسد عمر نے بتایا کہ اس ہفتے یومیہ صرف 8 اموات ہو رہی تھیں اور ہمارے پچھلے چند دن میں اوسطاً 60 سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں جبکہ ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں اور آکسیجن پر موجود مریضوں میں چار گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کسی بھی طرح سے دیکھ لیں کیسز میں چار گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، یہ صرف دو ماہ میں ہوا ہے اور یہ اس کے باوجود ہوا کہ ہم نے جو کچھ فیصلے کیے تھے ان پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے لیکن بدقسمتی عملدرآمد اس طریقے سے نطر نہیں آ رہا جس طریقے سے پہلی لہر میں نظر آیا تھا۔

انہوں نے بڑے بڑے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تمام تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جانے والے 5کروڑ بچوں کی نقل و حمل رک گئی اور اسی طریقے 20 لاکھ اساتذہ کا جانا بند ہو گیا جو ایک بہت بڑا فیصلہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کووڈ کے قریب المرگ مریضوں سے جڑی سنگین حقیقت بیان کرتی تصویر

ان کا کہنا تھا کہ اندر جو شادیاں ہو رہی تھیں ان پر پابندی لگا دی گئی، باہر کی شادیوں میں 300 کی حد رکھ دی گئی، اسی طرح ریسٹورنٹ میں بند کمروں میں کھانا کھانے پر پابندی لگا دی گئی اور یہ سارے تکلیف دہ فیصلے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں پاکستان کے بچوں کی تعلیم کی بھی فکر ہے، ہمیں پتہ ہے کہ بہت سارے تعلیمی ادارے کم قیمت اور کم فیس چارج کر کے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور ان بندشوں سے ایسے تعلیمی اداروں کا بہت نقصان ہوا ہے۔

وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے مزید کہا کہ اسی طرح میرج ہالز، ریسٹورنٹس اور ہزاروں لوگ ہیں جن کی نوکریاں ان سے جڑی ہوئی ہیں، ان سب کو بھی معاشی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہمیں یہ مجبوری میں اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ اگر ہم ایک آدمی کی معاشی بندش کی وجہ سے 100 آدمیوں کی معاشی بندش کو روک سکیں تو یہ منطقی بات ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریں۔

اس موقع پر انہوں نے لاک ڈاؤن اور پابندیوں سے متاثر ہونے والے شعبوں کے لیے ریلیف پیکج کے اعلان کا عندیا بھی دیا۔

مزید پڑھیں: کورونا کیسز میں اضافہ: لاہور کے 55 مقامات پر اسمارٹ لاک ڈاؤن

ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم فیصلہ عوامی اجتماعات میں 300 سے زائد افراد اکٹھے کرنے کی پابندی ہے، اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، اس کی وجہ سے ایک نقصان یہ ہو رہا ہے کہ براہ راست وبا پھیل رہی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ایک جگہ پر 10 یا 20 ہزار لوگ جمع ہوں گے تو وبا کا پھیلاؤ بڑھے گا لیکن اس سے زیادہ خطرناک چیز یہ ہو رہی ہے کہ جب ملک کے لوگ اپنے لیڈرز کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ جلسہ کرنے سے کورونا بھاگ جائے گا، وبا کے پھیلاؤ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو سیاسی بات کی جا رہی ہے کہ وبا پھیل رہی ہے اور اس کے نتیجے میں لوگ اپنی حفاظتی پر عمل کرنا کم کردیں تو یہ کہیں زیادہ بڑا نقصان ہے۔

انہوں نے کہا کہ جلسہ تو ایک شہر میں ہووہا ہے جہاں 20 یا 30ہزار لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن جو لوگ گھر میں بیٹھے یہ پیغام سن رہے ہیں وہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور وہ سارے پاکستان میں پھیلے ہوئے لہٰذا جو پہلی لہر کے مقابلے میں سب سے بنیادی فرق نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ پیغام یکساں نہیں جا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی مسلسل دوسرے روز بھی کورونا کیسز کی مثبت شرح میں سب سے آگے

ان کا کہنا تھا کہ اقدامات پر فرق ہو سکتا ہے جو پچھلی لہر میں بھی تھا جس میں کوئی زیادہ چاہتا تھا، کوئی ذراکم چاہتا تھا لیکن پیغام ایک ہی تھا البتہ بدقسمتی سے وہ پیغام یکساں نہیں جا رہا۔

اسد عمر نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں سینکڑوں کی تعداد میں ڈاکٹرز، ہیلتھ کیئر ورکرز اور پیرا میڈکس خود کورونا کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ بھی عوام سے احیتاطی تدابیر کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ میڈیا بھی دوبارہ سے عوام سے احتیاط برتنے کی اپیل کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان دنیا ان کے چند اسلامی ممالک میں سے ایک ہے جہاں مجمہوریت ہے لیکن یہ سارا نظام عوام کی زندگی کی بہتری اور ملک کی ترقی، خوشحالی اور امن کے لیے ہے، جمہوری نظام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سیاسی لیڈرز ایسے فیصلے کریں اور عوام کو ایسا پیغام دیں جس سے ملک کے عوام کی صحت اور روزگار خطرے میں پڑے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: کورونا ویکسین کی پہلی خوراک کے ساتھ وائرس سے تحفظ کا عالمی پروگرام شروع

انہوں نے کہا کہ ہمیں مجبوری میں چند شعبوں پر بندش لگانی پڑی ہے اور اگر ابھی بھی ہم بہتر فیصلے نہیں کریں گے اور پوری قوم یکجا ہو کر اس بات کا دوبارہ اعادہ نہیں کرے گی کہ جس طریقے سے پہلی لہر میں تمام قوم نے مل کر باہمی تعاون کے ساتھ اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کردار ادا کیا تھا، اگر ہم ابھی بھی یہ نہیں کریں گے تو شاید ہفتے، دو ہفتے کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہو کہ ہمارے پاس کو چوائس ہی نہ رہ جائے اور ہمیں مزید سیکٹرز پر بندش لگانی پڑے۔

تبصرے (0) بند ہیں