سیاحتی مقامات کے ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2020
وزیراعظم کے مطابق ایکوٹورزم ایک سائنس بن چکی ہے—فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم کے مطابق ایکوٹورزم ایک سائنس بن چکی ہے—فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے ہمیں سیاحتی مقامات کے ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔

اسلام آباد میں ایکوٹورزم کی لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کو اس منصوبے کے لیے عالمی بینک اور نیسلے کے ساتھ شراکت پر مبارکباد دی۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ شراکت داری اس منصوبے کے لیے کی گئی ہے جس کے حوالے سے میں سمجھ رہا تھا پاکستان میں ایسا منصوبہ شروع ہونا چاہیے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے پرانے سیاحتی مقامات جیسا کہ ناران، مری، نتھیا گلی میں غیرمنظم سیاحت نے بہت نقصان پہنچایا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ایک انگریز کے گزٹ ایئر میں پڑھا کہ 1890 میں انہوں نے لکھا تھا کہ یہاں مری میں آبادی بہت زیادہ بڑھتی جارہی ہے اور یہ علاقہ اس آبادی کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔

مزید پڑھیں: سیاحت کا فروغ: وزیراعظم نے اعلیٰ سطح کی قومی رابطہ کمیٹی تشکیل دے دی

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مری میں آہستہ آہستہ عمارتیں بنتی گئیں، پھر وہاں کا موسم بدلتا گیا اور غیر منظم آبادی کی وجہ سے اس کی خوبصورتی ختم ہوگئی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں اعظم خان کو کریڈٹ دیتا ہوں کہ انہوں نے نتھیا گلی کو بچالیا ہے اور جی ڈے اے نے منصوبہ بندی کی ہوئی ہے اور غیر منظم ڈیولپمنٹ کو روک رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کمراٹ اور دیگر خوبصورت سیاحتی مقامات بچے ہوئے ہیں اور یہ بہت ضروری تھا کہ جب ان میں ترقیاتی کام ہوں تو ماحولیات سے متعلق قوانین بنیں، ایک منظم ماحول ہو اور بڑی بڑی عمارتیں نہ بنیں۔

عمران خان نے کینیا کے نیشنل ریزورٹس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے اس وقت بچیں گے جب یہاں مستقل عمارتیں نہیں بنیں گی، ایسی جگہ بنائیں کہ وہ مری یا گلیات کی طرح کنکریٹ کا جنگل نہ بن جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عالمی بینک کے کنٹری سربراہ نے بہت اہم بات کی کہ یہ ٹورزم ریزورٹس تب کامیاب ہوتے ہیں جب مقامی لوگوں کو فائدہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان سال 2020 میں سیاحت کے لیے بہترین ممالک میں شامل

وزیراعظم نے کہا کہ جب تک مقامی لوگوں کو فائدہ نہیں ہوگا، انہیں روزگار نہیں ملے گا، ان کی زندگی بہتر نہیں ہوگی تو یہ ریزورٹس زیادہ دیر تک نہیں چلیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ مقامی لوگوں کو جب یہ احساس ہوگا کہ یہاں درخت نہ کٹیں کیونکہ اگر درخت کٹ گئے تو سیاح نہیں آئیں گے تو وہ پھر درختوں کو بچائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چترال میں پہاڑی بکروں کو بچایا گیا کیونکہ وہ ناپید ہوجاتے، تو جب مقامی لوگوں کو کہا گیا کہ آپ نے انہیں بچانا ہے اور ان میں چن چن کر کچھ کا شکار کیا جائے گا اور اس سے ملنے والا پیسہ علاقے کے لیے خرچ ہوگا تو اب پہاڑی بکروں کی آبادی بہت زیادہ ہوگئی ہے کہ آپ سڑک پر کھڑے ہوکر دیکھ سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ جہاں بھی ٹورسٹ ریزورٹ کھولے جائیں تو وہاں ایسا ماڈل ہونا چاہیے کہ اس سے مقامی لوگ مستفید ہوسکیں کیونکہ وہ دریاؤں کو آلودہ نہیں ہونے دیں گے، انہیں معلوم ہوگا کہ جتنی صفائی ہوگی اتنے زیادہ سیاح آئیں گے اور اس سے علاقے بھی محفوظ ہوسکیں گے اور لوگوں کو روزگار بھی مل سکے گا۔

عمران خان نے کہا کہ ان علاقوں کے لوگ روزگار کے لیے دوسرے شہر میں جاتے ہیں تو اب نوجوانوں کو انہی علاقوں میں روزگار مل سکے گا۔

مزید پڑھیں: سال کے 12 ماہ، پاکستان میں سیاحت کیلئے کب،کہاں جاسکتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ایکوٹورزم ایک سائنس بن چکی ہے، جنوبی افریقہ، مالدیپ میں دیکھیں کہ وہاں ان علاقوں کو کیسے محفوظ کیا جاتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں جتنی سیاحت ہے پہلے کبھی نہیں تھی، باہر سے جو سیاح تھے ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن مقامی سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اور گرمیوں میں شمالی علاقہ جات میں رش ہوتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اس ضمن میں موبائل فون نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، لوگ جاتے ہیں تصاویر کھینچتے ہیں، فیس بک پر لگاتے ہیں تو سیاحت کے فروغ کے لیے اشتہار نہیں دینے پڑتے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت ترقی کا سب سے زیادہ امکان سیاحت کے شعبے میں موجود ہے جس کا ہم سب سے کم فائدہ اٹھارہے ہیں، بہت سے ایسے علاقے ہیں جن کا لوگوں کو علم نہیں اور مجھے یقین ہے کہ آہستہ آہستہ پوری دنیا سے لوگ یہاں اسکینگ کرنے کے لیے آئیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں