سوشل میڈیا قواعد پر غلط تاثر پیدا کیا جارہا ہے، پی ٹی اے

12 دسمبر 2020
حکومت نے سوشل میڈیا کے نئے قواعد لاگو کیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز
حکومت نے سوشل میڈیا کے نئے قواعد لاگو کیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: ملک میں سوشل میڈیا کے لیے حال ہی میں نافذ کیے گئے نئے قواعد پر ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) کی جانب سے تحفظات کے اظہار کا جواب دیتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کہا ہے کہ ’قوانین سے متعلق متعصبانہ اور غلط تاثر پیش کیا جارہا ہے‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے 27 نومبر کو 'ریموول اینڈ بلاکنگ اَن لا فل آن لائن کانٹینٹ (پروسیجر، اوور سائٹ اینڈ سیف گارڈز) رولز 2020 'کے عنوان سے قواعد (نوٹیفائڈ) نافذ کیے تھے لیکن ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خاص طور پر اے آئی سی کے اراکین نے اس کا خیرمقدم نہیں کیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ اے آئی سی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو خط بھی لکھا گیا تھا اور ان قواعد پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد برقرار رکھنے پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا ملک چھوڑنے کا انتباہ

تاہم اب پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ایک بیان میں معنیٰ خیز مشاورت نہ کیے جانے کے اے آئی سی کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے اسے ’گمراہ گن اور حقائق کے منافی‘ قرار دیا۔

ٹیلی کام سیکٹر کے ریگولیٹر کی جانب سے کہا گیا کہ اس کا اعادہ کیا گیا ہے کہ قواعد کا مقصد پاکستان میں کاروباری ماحول کو متاثر کرنا نہیں بلکہ یہ مقامی قوانین کے مطابق رہتے ہوئے ٹیک کمپنیوں کے لیے بہتر سرمایہ کاری کے راستے پیدا کریں گے۔

اس میں کہا گیا کہ قواعد کو برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) 2016 کی دفعہ 37 (2) کے تحت قانونی تقاضے کے طور پر تشکیل دیا گیا۔

پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر تشکیل دی گئی مشاورتی کمیٹی کی جانب سے اس عمل کے لیے وسیع مشاورتی عمل کیا گیا‘، مزید یہ کہ اس عمل کے دوران اہم مقامی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کو ایکٹو انگیجمنٹ اور اوپن ڈائیلاگ کے مواقع کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی نے 19 جون 2020 کو اے آئی سی کے ساتھ ایک ملاقات کی تھی اور دونوں فریقین نے سوشل میڈیا قواعد کے مسودے پر اے آئی سی کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک، گوگل اور ٹوئٹر جو اے آئی سی کے اراکین بھی ہیں انہوں نے بھی مشاورت کےلیے انفرادی طور پر رجوع کیا تھا۔

ریگولیٹر کا کہنا تھا کہ گوگل نے 26 جون اور فیس بک نے 29 جون کو مشاورتی عمل میں حصہ لیا تھا۔

پی ٹی اے کے مطابق مشاورتی عمل کو کھلا اور غیرمعینہ مدت تک طویل نہیں رکھا جاسکتا تھا کیونکہ کمیٹی کو اسلام آباد ہائیکورٹ اور وفاقی حکومت کی ہدایات کے باعث اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے ٹائم لائن پر عمل کرنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد نافذ، اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت

بیان میں کہا گیا کہ لہٰذا مناسب مشاورت کے بعد کمیٹی نے حتمی رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کی گئی اور آئین پاکستان اور پیکا 2016 کی قانونی شقوں اور اصولوں میں رہتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کے تمام تحفظات اور سفارشات پر غور کیا‘۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق قواعد کے دوسرے باب میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کو شامل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اے آئی سی امریکا سے تعلق رکھنے والی 15 کمپنیوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ایک گروپ ہے، جس میں یاہو، فیس بک، ٹوئٹر، ایپل، کلاؤڈ فلیئر، بوکننگ ڈاٹ کام، گریب، ایئربی این بی، سیپ، راکیوٹین، لنکڈان، لائن، امیزون اور ایک پیڈیا گروپ شامل ہیں۔


یہ خبر 12 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں