فرانس: چارلی ہیبڈو حملہ آوروں کے سہولت کاروں کو بھی سزائیں

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2020
عدالت نے 30 سال قید کی سزا سنائی—فائل/فوٹو:رائٹرز
عدالت نے 30 سال قید کی سزا سنائی—فائل/فوٹو:رائٹرز

فرانس کی ایک عدالت نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے میگزین چارلی ہیبڈو کے دفاتر اور مارکیٹ پر 2015 میں حملہ کرنے والے افراد کے گروپ کے دیگر 14 ساتھیوں کو مالی معاونت اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے منسلک رہنے سمیت دیگر جرائم کا مرتکب قرار دے دیا۔

خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے حملہ آور کولیبالے کے سابق شراکت دار اور لاپتہ حیات بومیدین سمیت دیگر 14 افراد کو سزائیں سنائیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیرس: سیاسی رسالے کے دفتر پر حملہ، 12 ہلاک

جج نے 14 ملزمان میں شامل بومیدین کو ان کی عدم موجودگی میں دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کرنے اور دہشت گردوں کے گروپ سے منسلک ہونے پر 30 سال قید کی سزا سنائی اور تصور کیا گیا وہ تاحال زندہ ہیں اور گرفتاری اور سزاؤں سے بچنے کے لیے چھپے ہوئے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ حملہ آوروں نے ان افراد کو خاص طور پر اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہ صحافی یا سیکیورٹی فورسز کے رکن یا یہودی مذہب کے ماننے والے تھے اور ان کا مقصد مغربی ممالک میں دہشت گردی پھیلانا تھا۔

عدالت نے معمولی جرائم کے مرتکب 6 ملزمان پر عائد دہشت گردی کے الزامات خارج کردیے۔

رپورٹ کے مطابق ٹرائل کے دوران چارلی ہیبڈو کے صحافیوں سے بھی تفتیش کی گئی۔

عدالتی فیصلے کے بعد چارلی ہیبڈو کے وکیل رچرڈ مالکا کا کہنا تھا کہ یہ افراد ایک خفیہ نیٹ ورک کا حصہ تھے اور انہوں نے حملہ آوروں کو خون بہانے کے لیے سہولت دی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان خفیہ نیٹ ورکس کے بغیر حملے نہیں ہوسکتے تھے۔

مزید پڑھیں: فرانس: چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے میں 4 افراد زخمی

یاد رہے 2015 میں چارلی ہیبڈو پر حملے گئے تھے، جس میں فرانس کے مشہور کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اگلے روز ایک خاتون پولیس افسر کو بھی قتل کردیا گیا تھا اور مسلح حملہ آور ایمیڈی کولیبیلی نے مزید چار افراد کو ہلاک کردیا تھا۔

فرانس کی پولیس نے 2015 کے حملوں کا ذمہ دار ان 14 افراد کو ٹھہرایا جو مقابلے کے دوران مارے گئے تھے۔

چارلی ہیبڈو نے 2011 میں بھی پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے توہین آمیز خاکے اپنے سرورق پر شائع کیے تھے جس کے بعد اس کے دفتر پر فائر بموں کے ذریعے حملہ بھی کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں