فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

معزز پارلیمنٹیرینز،

میں اس امید پر یہ سب کچھ لکھ رہی ہوں کہ پی ٹی اے کی طرف سے آپ کو جو دشوار کن کام دیا گیا ہے اس سلسلے میں کچھ مدد کر سکوں-

اگر حالیہ رپورٹس پر یقین کر لیا جاۓ تو پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے ایک نا قابل یقین کام کیا ہے- ادراک کے ایک نادر لمحے میں پی ٹی اے نے پارلیمنٹ سے یہ درخواست کی کہ 'توہین رسالت' کی وضاحت کریں-

جی ہاں، ملک کے گورنر کو ، جو ایک 'توہین رسالت' کی ملزم ماں کے لئے معافی کی درخواست کر رہے تھے، ستائیس بار گولی مارنے، قاتل کو وکیلوں کی جانب سے پھولوں کے ہار پہناۓ جانے، اور لاہور ہائی کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس کی طرف سے اس کا دفاع کئے جانے، ایک چودہ سالہ لڑکی اور اس کے خاندان کو جلاوطن کر دینے، ایک ستر سالہ دماغی طور پر غیر متوازن بوڑھی عورت کو چودہ سال کے لئے جیل بھیجنے، سینکڑوں جلے ہوے گھروں اور درجنوں ماوراۓ عدالت قتل کے بعد آخر کار آپ یہاں تک پنہچے کہ آخر 'توہین رسالت' کی درست تعریف کیا ہے؟

اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ بڑی عجیب سی بات ہے- میں اسے مختصر الفاظ میں بیان کرتی ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی واقعہ یا اسے آپ وقتی دماغی خبط کا مظاہرہ بھی کہہ سکتے ہیں، وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں تھا جو ایک دوسرے درجے کے فلمساز نے کیا-

لیکن بات وہی ہے، ترجیحات- ہم عجیب لوگوں اور رد عمل والی قوم ہیں، ہم نا قابل معافی کو معاف کرتے ہیں اور دوسروں کے جرائم پر خود کو سزا دیتے ہیں-

بنا مزید وقت ضائع کئے میں اس اہم مسئلے پر بحث کرنا چاہوں گی- اب جبکہ آپ کو قوم کے لئے 'توہین رسالت' کی تعریف بیان کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے- اب جبکہ اس کا تعین کرنا کتنا مشکل ہے، اور گورنمنٹ کی پالیسیان اس حوالے سے مبہم نوعیت کی ہیں-

میں وضاحت کی خاطر 'توہین رسالت' کی مثالوں کی فہرست بنانے کی درخواست کروں گی-

کوئی توہین رسالت کا مرتکب ہر اس بار ہوتا ہے جب مذہب کے نام پر کسی کو نقصان پہچایا جاۓ-

کوئی توہین رسالت کا مرتکب تب ہوتا ہے جب مذہب کے نام پر دوسروں کو نفرت کی ترغیب دے-

کوئی توہین رسالت کا مرتکب تب ہوتا ہے جب مذہب کے نام پر قتل کو جائز قرار دے-

کوئی 'توہین رسالت' کا مرتکب تب ہوتا ہے جب وہ مذہب کے نام پر کسی سے آزادی اظہار کا حق چھین لے-

توہین رسالت کی سب سے بڑی شکل جس کے مرتکب ہم سے اکثر لوگ ہوتے ہیں، یہ ہے کہ دوسروں کو یقین کرنے، بولنے، سوچنے اور کبھی کبھی اپنے وجود کے لئے بھی خوف کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیں، اور ان سب کو ہم ایمان کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں یا خاموشی کے ساتھ تمشائی بنے دیکھتے ہیں-

کسی بھی ویڈیو، سکیچ یا نفرت انگیز تقریر نے اسلام کو اتنا نقصان نہیں پہچایا، جتنا خون کے پیاسے، منچلے غنڈوں کی فوج نے پہچایا ہے جو مذہب کے نام پر قتل و غارتگری کو جائز قرار دیتے ہیں-

توہین کی اس سے بڑی شکل اور کوئی نہیں جہاں خدا کے نام پر ایک سفاک قاتل اور نفرت کو جائز قرار دیا جاۓ- سوسائٹی میں خوف اور لا قانونیت کو پھیلانا اور اسے ایمان کا عمل کہنا- اس پاگل پن کو اب ختم کریں، قوم کو بتائیں کہ ہم سب متوقع 'بے ادب ' نہیں ہیں جن کو موقع آنے پر ماوراۓ قانون قتل کر دیا جاۓ-

میرا یقین کیجیے، شاید یہ یو ٹیوب پر پابندی ہٹانے سے زیادہ ہی کچھ کر دکھاۓ-

آپ کی ساتھی متوقع 'بے ادب'


ثنا سلیم، گلوبل وائسز، ایشین کورسپونڈنٹ، دی گارڈین اور اپنے ذاتی بلاگ میسٹفائد جسٹس کے لئے بلاگ لکھتی ہیں- ترجمہ ناہید اسرار

تبصرے (0) بند ہیں