سال 2020: کراچی میں کار لفٹنگ، موٹرسائیکل، موبائل فون چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہوا

اپ ڈیٹ 03 جنوری 2021
کراچی 2020 میں جرائم کا انڈیکس میں 103 نمبر تک پہنچ گیا، سربراہ سی پی ایل سی—فائل فوٹو: علی رضا کھتری
کراچی 2020 میں جرائم کا انڈیکس میں 103 نمبر تک پہنچ گیا، سربراہ سی پی ایل سی—فائل فوٹو: علی رضا کھتری

کراچی: سال 2019 کے مقابلے میں 2020 میں کار لفٹنگ، موٹر سائیکل اور موبائل فون چھیننے جبکہ 2 پہیوں والی گاڑیوں کی چوری میں اضافہ دیکھا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام اور ذرائع کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اسٹریٹ کرائمز کی زیادہ ایف آئی آر درج کی گئی جو مذکورہ مقدمات کی پیروی کی کوشش تھی۔

تاہم اسی عرصے کے دوران کاروں کے چیھنے، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور بینک ڈکیتیوں میں کمی دیکھی گئی۔

جرائم کے حوالے سے سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں ایک ہزار 452 کاریں چوری کی گئیں جبکہ 2020 میں یہ تعداد ایک ہزار 527 رہی۔

مزید پڑھیں: عالمی جرائم انڈیکس: کراچی کی پوزیشن میں 22 درجے بہتری

اسی طرح 2019 میں دوپہیوں والی ایک ہزار 897 گاڑیاں چھینی گئی جبکہ 2020 میں موٹرسائیکل چھیننے کی یہ تعداد 2 ہزار 431 رہی۔

اس کے علاوہ سال 2020 میں شہر قائد سے 34 ہزار 908 موٹرسائیکلز کو چوری کیا گیا جبکہ 2019 میں یہ تعداد 28 ہزار 609 تھی۔

وہیں 2020 میں 21 ہزار 578 موبائل فونز چھیننے گئے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 19 ہزار 862 تک ریکارڈ کی گئی تھی۔

مزید یہ کہ گزرنے والے سال 2020 میں اغوا برائے تاوان کے صرف 3 واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 11 تھی۔

اسے ستمبر 2013 میں شروع کیے گئے کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد منظم جرائم میں واضح کمی کے طور دیکھا جا رہا ہے کیونکہ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں 2014 میں 115 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔

اسی طرح بھتہ خوری کے واقعات میں بھی کمی دیکھنے میں آئی اور 2019 کے 32 واقعات کے مقابلے میں 2020 میں 22 واقعات رپورٹ ہوئے۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ سال 2014 میں شہر میں 937 کیسز بھتہ خوری کے رپورٹ ہوئے تھے۔

سامنے آنے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2020 میں شہر میں بینک ڈکیتی کا صرف ایک واقعہ ہوا جبکہ 2019 میں یہ تعداد 3 تھی تاہم 2014 کے اعداد و شمار میں 19 بینک ڈکیتیاں رپورٹ ہوئی تھیں۔

385 قتل

سی پی ایل سی کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں 363 افراد کو مختلف وجوہات پر قتل کیا گیا جبکہ 2020 میں یہ تعداد 385 رہی تاہم 6 سال قبل یعنی 2014 میں یہ تعداد ایک ہزار 629 تھی۔

اس حوالے سے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) کراچی غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ اغوا، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور دہشتگردی جیسے منظم جرائم میں واضح طور پر کمی آئی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 2013 میں 2 ہزار 800 افراد قتل ہوئے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ روزانہ 8 افراد قتل ہورہے تھے، جو کم ہوکر 1.3 قتل یومیہ تک ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ’تقریباً صفر‘ رہی چونکہ گزشتہ برس 2 لڑکیوں بسما اور دعا منگی کے اغوا کے کیسز کا سراغ لگایا گیا اور صرف ایک کیس باقی رہا۔

تاہم سٹی پولیس چیف نے یہ تسلیم کیا کہ اسٹریٹ کرائم، موٹرسائیکل چوری اور گھروں میں ڈکیتی کی وارداتیں بڑا چیلنج ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جرائم خاص طور پر موٹرسائیکلز کی چوری میں زیادہ تر نشے کے عادی ملوث ہوتے ہیں کیونکہ وہ اسے صرف 5 سے 10 ہزار روپے میں فروخت کردیتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ مددگار 15 کا ردعمل کافی بہتر ہوا ہے اور یہ چند منٹوں میں ردعمل دے رہے ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ گھروں میں ڈکیتی کے بڑے گروہوں کا بھی پتا لگا کر انہیں پکڑا گیا ہے۔

تجاویز

علاوہ ازیں سی پی ایل سی کے سربراہ زبیر حبیب کا کہنا تھا کہ انہوں نے شہر میں جرائم کا اندازہ لگانے کے لیے 2014 کو ’ڈیٹم لائن‘ کے طور پر بنایا تھا، جس نے قتل عام میں نمایاں کمی کی نشاندہی کی اور اس سال 1600 افراد قتل ہوئے جو اب کم ہوکر 385 تک آگئے۔

یہ بھی پڑھیں: جرائم میں نمایاں کمی، کراچی ورلڈ کرائم انڈیکس میں چھٹے سے 70 ویں نمبر پر آگیا

انہوں نے نشاندہی کی کہ 2016 میں کراچی جرائم کے انڈیکس میں 26 ویں نمبر پر تھا جو 2020 میں 103 تک پہنچ گیا جو حفاظت کے حوالے سے نمایاں اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

زبیر حبیب کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائمز میں ماضی کے مقابلے میں بندوقوں کا استعمال کم ہورہا ہے چونکہ چھینا جھپٹی کی واردات کم ہوئی ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر اٹھائی جانے والی گاڑیاں بلوچستان لے جائی جاتی ہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ نادرن بائی پاس پر موٹرویز کی طرز پر کم از کم 8 سے 10 انٹرچینجرز قائم کرنے چاہئیں کیونکہ اس وقت بائی پاس پر کوئی انٹرچینج نہیں ہے جس کا استعمال مجرمان گاڑیاں لے جانے کے لیے کرتے ہیں۔

سی پی ایل سی سربراہ کا کہنا تھا کہ اسٹریٹ کرائمز میں چوری کا عنصر بنیادی طور پر بیروزگاری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے جس میں کووڈ 19 کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’وائٹ کرولا گینگ‘ پکڑا گیا ہے جس نے ڈی ایچ او اور کلفٹن میں حال ہی میں گھروں میں 15 ڈکیتیاں کی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں