زمبابوین صدر کی الیکشن کامیابی عدالت میں چیلنج

ہرارے: زمبابوین حزب اختلاف کی جماعت نے حالیہ صدارتی انتخابات میں صدر رابرٹ موگابے کی کامیابی جمعہ کو عدالت میں چیلنج کر دی ہے۔
حال ہی میں ہونے والے زمبابوے کے صدارتی انتخاب میں صدر رابرٹ موگابے نے کامیابی حاصل کی تھی اور وہ اگلے پانچ سال کیلیے ایک بار پھر صدر منتخب ہو گئے تھے۔
جمعے کو حزب اختلاف کے رہنما مورگن سوان گرائی کے وکلا نے عدالت میں صدر کی کامیابی کے خلاف ایک قانونی اپیل فائل کر دی ہے۔
اپوزیشن رہنما کی جماعت موومنٹ فار ڈیمو کریٹک چینج(ڈی ایم سی) نے اپنی اپیل میں کہا ہے کہ 31 جولائی کو ہونے والے الیکشن مذاق تھے اور اس میں بڑے پیماے پر فراڈ کیا گیا لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان ڈگلس وانزورا نے پٹیشن فائل کرنے کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپیل کی ہے کہ ان انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے اور آئندہ 60 دنوں میں نئے الیکشن کرائے جائیں۔
سن 2008 کے خونی الیکشن کے بعد چار سال قبل موگابے اور سوان گرائی نے ایک مخلوط لیکن کمزور حکومت قائم کی تھی جس میں دونوں ہی جماعتیں شامل تھیں۔
گزشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات میں زمبابوے کے الیٹورل کمیشن نے موگابے کو 61 فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیاب قرار دیا تھا جہاں ان کے حریف سوان گرائی 34 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب رہے تھے۔
لیکن مقامی تجزیہ کاروں نے انتخابی عمل کو مذاق قرار دیا تھا جبکہ مغربی طاقتوں نے بھی انتخابات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، امریکا اور برطانیہ نے ووٹوں کی ساکھ پر سوالات اٹھائے تھے جبکہ آسٹریلیا نے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم مقامی قوتوں نے اس معاملے پر نسبتاً کم تنقید کی تھی جہاں جنوبی افریقن ڈیو لپمنٹ کمیونٹی نے اسے آزاد اور پرامن انتخابی عمل قرار دیا تھا تاہم اس نے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا تھا۔
افریقن یونین نے انتخابات کو صاف تو قرار دیا لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کچھ جگہوں پر لوگوں کی جانب سے ووٹ نہ ڈالنے اور انتخابی فہرستوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اس حوالے سے آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ تین لاکھ 5 ہزار زمبابوین ووٹرز ووٹ ڈالے بغیر گھروں کو واپس لوٹ گئے کیونکہ ووٹر لسٹوں میں ان کے نام موجود نہ تھے، ان کے ووٹ کہیں اور رجسٹر تھے یا ان کی شناخت نہ ہو سکی۔
اعدادوشمار کے مطابق ہرارے میں سب سے زیادہ 64 ہزار 483 افراد ووٹ ڈالے بغیر گھروں کو واپس لوٹ گئے اور یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہری علاقے اپوزیشن جماعت ایم ڈی سی کا اہم گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
ڈگلس وانزورا کا کہنا تھا کہ ہم کچھ اہم ثبوت جمع کرا رہے ہیں جبکہ کچھ زبانی شواہد بھی شامل ہوں گے، ٹرائل ایم ڈی سی کا نہیں بلکہ موگابے اور ان کی حکومت کا کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ زمبابوین الیکٹورل کمیشن کا بھی۔
پارٹی ترجمان نے کہا کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد بھی ہیں کہ انتخابات میں ایک ہی شخص نے ایک سے زائد بار حق رائے دہی کا استعمال کیا۔
اے ایف پی کو دستیاب کورٹ دستاویز ایم ڈی سی نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ ووٹر لسٹوں میں تبدیلی کیلیے ایک اسرائیلی کمپنی کو 10.5 ملین ڈالر ادا کیے گئے۔
کورٹ میں الیکشن نتائج چیلنج کیے جانے کے بعد 89 سالہ موگابے کی بطور صدر چھٹی آئینی مدت کے آغاز میں چھ ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے جہاں عدالت آئندہ چودہ دن میں اس درخواست پر فیصلے کا اختیار رکھتی ہے۔
الیکٹورل کمیشن کے مطابق حالیہ انتخابات میں 35 لاکھ سے زائد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
یاد رہے کہ سوان گرائی کی جانب سے موگابے کو عہدے سے ہٹانے کی یہ تیسری کوشش ہے جہاں وہ اس سے قبل بھی دو بار موگابے کو عہدہ صدارت سے ہٹانے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔