اہم وفاقی اداروں نے خیبرپختونخوا کی کمپنی کو لائسنس دینے کی مخالفت کردی

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2021
کے پی ٹی جی سی کی درخواست پر نیپرا کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز سے طلب کردہ رائے کے جواب میں حکومت پنجاب نے اس کی حمایت کی ہے۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
کے پی ٹی جی سی کی درخواست پر نیپرا کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز سے طلب کردہ رائے کے جواب میں حکومت پنجاب نے اس کی حمایت کی ہے۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپچ کمپنی، دونوں اہم وفاقی اداروں نے خیبر پختونخوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ سسٹم کمپنی (کے پی ٹی جی سی) کے ٹرانسمیشن لائسنس کی مخالفت کردی ہے جو صوبے میں بجلی کی فراہمی کے تقریبا 7300 میگاواٹ کے نظام کو پانچ سے 10 سال کی مدت میں چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی ٹرانسمیشن لائسنس کی فراہمی کے لیے کے پی ٹی جی سی کی درخواست پر اسٹیک ہولڈرز سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے طلب کردہ رائے کے جواب میں حکومت پنجاب نے اس درخواست کی حمایت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ مجوزہ لائسنس جب ضرورت ہو تو کم سے کم تکنیکی و انسانی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائے اور صوبائی ٹرانسمیشن کمپنی کھلی رسائی فراہم کرے اور بجلی کی ہول سیل مارکیٹ میں شرکت کرے۔

مزید پڑھیں: بجلی کے شعبے میں بڑی تبدیلوں کا منصوبہ

سی پی پی اے، جو تمام سرکاری اور نجی ذرائع سے بجلی کی خریداری اور تمام تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کو فروخت سے متعلق مالی معاملات کی نگرانی کرتی ہے، نے کہا ہے کہ موجودہ قوانین ایک وقت میں ملک میں صرف ایک پاور سسٹم آپریٹر کی اجازت دیتے ہیں جو پہلے سے موجود ہو اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کی شکل میں قومی گرڈ چلا رہا ہو۔

اس میں کہا گیا کہ کے پی کمپنی نے اپنے بنیادی کاروبار کو سسٹم آپریشنز اور شیڈولنگ اور جنریشن پلانٹس ڈسپیچ بتایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ نیپرا ایکٹ کی دفعات کے منافی ہے' جس میں سسٹم آپریٹر (ایک ادارے) کو سسٹم آپریشنز کے کام انجام دینے کا کہا گیا ہے اور اس کے لیے سسٹم آپریٹر لائسنس کی لازمی ضرورت ہے۔

نیپرا ایکٹ کی دفعہ 23 جی میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ 'ایک وقت میں صرف ایک ہی اس طرح کا لائسنس دیا جائے گا'، تاہم اس طرح کے لائسنس کی فراہمی تک نیشنل گرڈ کمپنی (این جی سی) نیپرا ایکٹ کے سیکشن 18 میں دیے گئی سسٹم آپریٹر کا کام انجام دے گی۔

اس کے علاوہ این جی سی یا صوبائی گرڈ کمپنی (پی جی سی) سے براہ راست یا بالواسطہ منسلک جنریشن سہولت سسٹم آپریٹر کی ہدایت کے مطابق اکانومک ڈسپیچ کے تابع ہوگی لہذا پی جی سی کو اپنی حدود میں ایسے جنریٹرز کی ترسیل پر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتکار پریشان

اس کے علاوہ کے پی ٹی جی سی کی طرف سے دی گئی درخواست میں تقریباً 7 ہزار 320 میگا واٹ بجلی آئندہ 5 سے 10 سالوں میں مختلف پن بجلی منصوبوں کے ذریعے دستیاب ہونے کا کہا گیا ہے، گرڈ ضابطوں کے مطابق این ٹی ڈی سی کو ملک کی طلب اور رسد کی صورتحال کو شامل کرنے کے لیے انڈیکیٹو جنریشن کیپیسیٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) تیار کرنا ہے لہذا نئے منصوبوں کے حوالے سے کسی بھی وعدے سے قبل سائٹ، سائز اور ٹیکنالوجی اور وقت کی توثیق کو آئی جی سی ای پی اور وفاقی حکومت کی قابل تجدید توانائی پالیسی کے ساتھ کرنا ہوگا۔

سی پی پی اے نے دعویٰ کیا کہ نیپرا کی جانب سے آئی جی سی ای پی کی منظوری زیر التوا ہے، سسٹم میں پن بجلی کے منصوبوں کو شامل کرنے سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اس کے کوانٹم اور وقت کو آئی جی سی ای پی کے مطابق ہونا چاہیے۔

اس کے بعد مطالعات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کم سے کم سطح کی لاگت پر اور پن بجلی کی زیادہ سے زیادہ شراکت سے گرڈ میں پن بجلی لانے کے لیے کون سے زون سب سے زیادہ ممکن ہیں۔

اسی طرح این جی سی کو نیپرا قانون کے تحت پورے ملک میں ٹرانسمیشن سروسز کی فراہمی کا خصوصی حق حاصل تھا جبکہ ملک میں ٹرانسمیشن نیٹ ورک کے لیے مرکزی منصوبہ بندی کا کام گرڈ ضابطوں اور ٹرانسمیشن سسٹم توسیع منصوبہ (ٹی ایس ای پی) کے تحت این ٹی ڈی سی کے پاس تھا۔

مزید پڑھیں: حکومت کا صنعتوں کے لیے بجلی کی ’پیک آور‘ قیمت ختم کرنے کا اعلان

اس لیے پی جی سی کا ٹرانسمیشن کاروبار اس کی حدود میں ٹی ایس ای پی کے تحت منظور شدہ ٹرانسمیشن سہولیات کی ترقی، تعمیر اور بحالی تک ہی محدود ہے جبکہ ڈسکوز اپنا سب ٹرانسمیشن پلان پی جی سی کے بعد تیار کریں گے۔

پی جی سی کا کردار اور اداروں کی طرح صرف منظور شدہ منصوبوں پر عمل درآمد تک ہی محدود ہونا چاہیے۔

این ٹی ڈی سی نے کے پی ٹی جی سی کے صوبائی ٹرانسمیشن لائسنس کی بھی مخالفت کی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 154 (1) کے تحت مشترکہ مفادات کونسل سے وفاقی قانون سازی فہرست کے دوسرے حصے، جس میں بجلی بھی شامل ہے، کے حوالے سے پالیسیاں مرتب کرنے اور ان کو کنٹرول کرنے کا کہا گیا ہے لہذا پالیسی فیصلہ سی سی آئی کے سامنے رکھا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں