میانمار: فوجی بغاوت کے خلاف سراپا احتجاج شہریوں پر پولیس کا تشدد

اپ ڈیٹ 10 فروری 2021
مقامی میڈیا کے مطابق خاتون کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
مقامی میڈیا کے مطابق خاتون کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

میانمار میں پولیس نے فوجی بغاوت کے خلاف بڑھتے ہوتے مظاہروں کو کنٹرول کے لیے شہریوں پر واٹرکینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔

غیرملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں ایک خاتون شدید زخمی ہوگئیں۔

مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف دوسرے روز بھی مظاہرے جاری

مقامی میڈیا کے مطابق خاتون تشویش ناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

انٹرنیٹ سروس معطل ہونے کے باوجود میانمار کے متعدد شہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوجاتی ہے جبکہ اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔

گزشتہ تین روز میں پولیس نے آمریت کے خلاف عوامی ردعمل کو زائل کرنے کے لیے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے صرف واٹر کینن کا استعمال کیا تھا لیکن اب پولیس نے ربڑ کی گولیاں اور خوف پھیلانے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کے وقت پارلیمنٹ کے سامنے ڈانس کرنے والی خاتون مقبول

میانمار کے شہر نیپائڈاو میں 4 افراد کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ڈاکٹروں کے مطابق چاروں افراد ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہوئے۔

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پرموجود متعدد فوٹیج میں دکھایا گیا کہ موٹرسائیکل پر سوار خاتون کے سر پر ربڑ کی گولی لگی اور وہ زمین پر جا گریں۔

مقامی میڈیا کے مطابق 2007 میں بدھ مت کے مذہبی رہنما کی زیر قیادت زعفران انقلاب کے بعد اس وقت ملک میں سب سے بڑے مظاہرے جاری ہیں۔

خیال رہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کو جمہوری طور پر منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔

مزیدپڑھیں: میانمار میں فوج اقتدار پر قابض، آنگ سان سوچی زیرحراست

فوج کے زیر ملکیت ایک ٹی وی اسٹیشن پر جاری بیان کے مطابق فوج نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی دھاندلی کے جواب میں نظربندیاں کی ہیں جس میں فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ کو اقتدار دیا گیا ہے اور ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

بغاوت سول حکومت اور فوج کے درمیان کئی روز سے جاری کشیدگی میں اضافے کے بعد سامنے آئی جس نے انتخابات کے نتیجے میں بغاوت کے خدشات کو جنم دیا تھا۔

سیاسی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب ایک فوجی ترجمان نے نئی پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بغاوت کو مسترد کرنے سے انکار کردیا تھا اور فوجی سربراہ من آنگ ہیلنگ نے آئین ختم کیے جانے کے امکان کو بڑھا دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں