اسلام آباد ہائیکورٹ میں توڑ پھوڑ، وکلا کےخلاف توہین عدالت کا کیس سماعت کیلئے مقرر

اپ ڈیٹ 10 فروری 2021
شوکاز لسٹ میں کہا گیا کہ کیس کی سماعت 18 فروری کو ہوگی—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
شوکاز لسٹ میں کہا گیا کہ کیس کی سماعت 18 فروری کو ہوگی—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالت میں توڑ پھوڑ میں ملوث 17 وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے وکلا کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ 9 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ میں ملوث وکلا کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کرنے والے وکلا کے خلاف مقدمہ درج

اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کے مطابق رجسٹرار آفس سے شوکاز لسٹ جاری کی گئی جس میں وکلا کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کا تذکرہ ہے۔

شوکاز لسٹ میں کہا گیا کہ کیس کی سماعت 18 فروری کو ہوگی۔

جاری کردہ شوکاز لسٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام 17 وکلا سے تحریری وضاحت سمیت ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔

شوکاز نوٹس میں وکلا کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

نوٹس کے مطابق چیف جسٹس بلاک کا مرکزی دروازہ توڑا اور سیکیورٹی عملے پر حملہ کیا، آپ اس ہجوم کا حصہ تھے جس نے چیف جسٹس اور دیگر ججز کو یرغمال بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: مجھے ساڑھے تین گھنٹوں تک یرغمال رکھا گیا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اس میں کہا گیا کہ آپ کی وجہ سے عدالتی کارروائی کئی گھنٹوں تک معطل رہی اور آپ کے اس عمل سے سائلین انصاف تک رسائی سے محروم رہے۔

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عدالت پر وکلا کے دھاوے کے بارے میں ریمارکس دیے تھے کہ دوبارہ ایسا واقعہ نہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اِس واقعے کے ذمہ داران کو مثال بنایا جائے۔

وکلا کے اسلام ہائی کورٹ پر دھاوا بولنے کے تیسرے روز آج عدالتیں کھلیں تو ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ مجھے ساڑھے 3 گھنٹوں تک یرغمال رکھا گیا، میں ایکشن لے سکتا تھا لیکن میں نے اکیلے محصور رہنے کا فیصلہ کیا اور ہائی کورٹ سے جانے کے بجائے ساڑھے 3 گھنٹوں تک یرغمال رہ کر سامنا کیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملہ کر کے سب کو راستہ دکھایا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ حملہ

خیال رہے کہ اتوار کی رات ضلعی انتطامیہ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور مقامی پولیس نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف-8 کی ضلعی عدالتوں کے اطراف میں انسداد تجاوزات آپریشن کیا تھا۔

اس آپریشن کے دوران وکلا کے غیرقانونی طور پر تعمیر کردہ درجنوں دفاتر کو مسمار کردیا گیا تھا اور اس آپریشن کے خلاف مزاحمت پر 10 وکلا کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’بار سیاست‘ میں وکلا کی فائرنگ کی خطرناک روایت، مقدمات درج

آپریشن کے ردِ عمل پر پیر کی صبح تقریباً 400 وکلا ضلعی عدالتوں پر جمع ہوئے اور بعدازاں بغیر کسی رکاوٹ کے 100 کاروں کے قافلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد وکلا نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے چیمبر پر دھاوا بولا اور املاک کو نقصان پہنچایا، کھڑکیاں اور گملے توڑے گئے اور ججز کے خلاف گالم گلوچ کی گئی۔

احتجاج کرنے والے وکلا نے عملے کے ساتھ بدتمیزی کی اور چیف جسٹس بلاک میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے ساتھ انہوں نے جبری طور پر میڈیا کو احتجاج کی کوریج کرنے سے روکا اور صحافیوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیگر ججز نے مظاہرین کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور انہوں نے پولیس ری انفورسمنٹ اور رینجرز کے کنٹرول سنبھالنے تک چیف جسٹس بلاک کا گھیراؤ جاری رکھا۔

بعدازاں وکلا کے منتخب نمائندوں نے ججز کے ساتھ مذاکرات کیے اور احتجاج ختم کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے۔

ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق وکلا نے سرکاری خرچ پر مسمار کیے گئے چیمبرز کی دوبارہ تعمیر، ڈپٹی کمشنر کے تبادلے اور رات گئے کیے گئے آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے وکیلوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں