یہ کیچز گرانے کی رات تھی، یہ کرس گیل کی رات تھی، یہ فخر زمان کی رات تھی لیکن سب سے بڑھ کر یہ محمد حفیظ کی رات تھی۔

حفیظ اتنے سکون سے گیند کو باؤنڈری کے پار پہنچاتے رہے کہ ایک چھکے پر کمینٹیٹر ڈیوڈ گوور کہتے ہیں کہ ’چھکے میں 90 فیصد کمال ٹائمنگ کا ہے‘۔ اگلے چھکے پر گوور ہی کہتے ہیں کہ ’یہ چھکا بغیر کسی کوشش کے لگایا لگتا ہے‘ اور پھر سائمن ڈول کو حفیظ کی شاٹس سے گولف کی شاٹس یاد آ گئیں۔

ایک مشکل ٹارگٹ جسے فخر زمان نے ابتدائی اوورز میں سہیل اختر کی سست بیٹنگ کے باوجود مشکل ترین نہیں ہونے دیا، لیکن جب حفیظ کا بلا چلنے لگا تو یہ ٹارگٹ آسان ہوتا چلا گیا۔

میچ کے لیے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے 2 جبکہ لاہور قلندرز نے ایک تبدیلی کی تھی۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس میچ میں 3 غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ گئی جبکہ یہاں کیمرون ڈیلپورٹ کی بیٹنگ اور سلو میڈیم پیس باؤلنگ کافی مفید ہوسکتی تھی۔

؍###کوئٹہ کی اننگز

کوئٹہ کا آغاز اچھا نہیں تھا، ٹام بینٹن جو پچھلے سیزن میں پشاور زلمی کی جانب سے بھی کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے تھے، اس سیزن میں بھی مسلسل دوسرے میچ میں ناکام رہے۔ صائم ایوب ایک بار پھر ناکام ہوئے اور اس بار نہایت غلط شاٹ کھیل گئے۔ صائم کو ان کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں موقع ملا اور کرس گیل بھی ان کی کافی تعریفیں کرچکے تھے لیکن انہیں اس طرح وکٹ ضائع کرنے سے بچنا ہوگا۔

سرفراز احمد نے اننگ کا آغاز عمدہ شاٹس سے کیا تھا لیکن جیسے ہی کرس گیل کی شاٹس لگنے لگیں تو سرفراز بہت سست ہوگئے۔ سرفراز احمد کی اننگ کی خاص بات کریز پر آتے ہی شاہین آفریدی کو 2 مسلسل گیندوں پر چوکے اور پھر حارث رؤف کو ایک چوکا تھا۔

کرس گیل جو پی ایس ایل میں کم ہی کامیاب رہے ہیں، آج بھی ناکام ہوسکتے تھے اگر ان کے 2 کیچ نہ گرا دیے جاتے۔ ان گرائے ہوئے کیچوں سے پہلے اور بعد میں گیل نے کئی عمدہ چوکے اور چھکے لگائے۔

احمد دانیال کا یہ صرف دوسرا ٹی20 میچ تھا، پہلے میچ میں انہیں وکٹ نہ مل سکی لیکن اگر پہلی ہی وکٹ کرس گیل کی مل جائے تو کسی نوجوان فاسٹ باؤلر کو اور کیا چاہیے لیکن گیل کا کیچ جو سیدھا سلمان علی آغا کے پاس گیا تھا، ہاتھوں سے نکل گیا۔

راشد خان لاہور قلندرز کے لیے شاید صرف 2 ہی میچوں کے لیے دستیاب تھے، ہاتھ میں چوٹ بھی لگی لیکن ٹیم کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ کرس گیل کو ہوا میں کھیلنے پر مجبور کیا، گیند باؤنڈری کے بہت اندر تھی لیکن ایک بار پھر گیند کے نیچے سلمان آغا تھے اور ایک بار پھر گیند ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔

کرس گیل اور سرفراز احمد کی عمدہ پارٹنرشپ کے بعد اعظم خان تو متاثر نہ کرسکے لیکن نواز کی عمدہ ہٹنگ نے گلیڈی ایٹرز کے اسکور کو متاثر کن بنا دیا۔ یہ ایک وننگ ٹوٹل تو نہیں تھا لیکن اس پر لڑا جاسکتا تھا۔ جب نواز بیٹنگ کے لیے آئے تو لگ رہا تھا کہ انہیں بین کٹنگ سے پہلے بھیج کر غلطی کی گئی ہے لیکن محمد نواز نے اس فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا۔

لاہور قلندرز کے لیے پہلے میچ میں بہترین باؤلنگ کرنے والے شاہین آفریدی اس میچ میں کافی مہنگے ثابت ہوئے لیکن باقی باؤلرز نے عمدہ باؤلنگ کی۔ حارث رؤف نے اگرچہ 38 رنز تو دیے لیکن 3 اہم وکٹیں بھی حاصل کیں۔ احمد دانیال اور راشد خان جن کی گیندوں پر کرس گیل کے کیچ چھوٹے، انہوں نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

کرس گیل نے اپنی اس اننگ کے دوران ناصرف اپنی بیٹنگ سے شائقین کو محظوظ کیا بلکہ اپنی حرکتوں سے بھی مرکزِ نگاہ رہے۔ اپنی اننگ کے دوران کرس گیل نے مخالف باؤلرز، امپائرز، فیلڈرز، ٹی وی کمنٹیٹرز غرض ہر متعلقہ اور غیر متعلقہ شخص سے گپ شپ جاری رکھی۔

لاہور کی اننگز

لاہور قلندرز کی اننگ کا آغاز بہت تیز نہیں تھا بلکہ کافی پُرسکون تھا۔ ایسا ہرگز نہیں لگ رہا تھا کہ بیٹسمینوں کو ایک بڑے اسکور کے تعاقب میں کسی قسم کی بے چینی ہے۔ ایک جانب فخر زمان ہر اوور میں باؤنڈری کا تسلسل برقرار رکھے ہوئے تھے تو دوسری جانب سہیل اختر سکون سے وکٹیں بچا کر خراب گیند کا انتظار کر رہے تھے۔

نواز کے ایک عمدہ اوور کے بعد زاہد محمود نے ایک گوگلی پر سہیل اختر کو بولڈ کردیا۔ زاہد کی گوگلی زیادہ اسپن تو نہیں ہوئی لیکن تیزی سے وکٹوں میں گھس گئی۔ بین کٹنگ کے اگلے اوور میں بھی صرف 4 رنز ہی بن پائے تو اننگ کے 10 اوور مکمل ہوچکے تھے اور مطلوبہ رن ریٹ 11 رنز کا ہوچکا تھا۔ لیکن قلندرز کے لیے اطمینان کی بات یہ تھی کہ فخر زمان ابھی کریز پر موجود تھے اور 9 وکٹیں ہاتھ میں تھیں۔

11ویں اوور میں فخر اور حفیظ نے زاہد کو چھکے لگائے لیکن بین کٹنگ اور انور علی کے 2 عمدہ اوورز نے مطلوبہ رن ریٹ کم نہ ہونے دیا۔ 14ویں اوور کی دوسری گیند پر عثمان شنواری کی باؤلنگ پر محمد حفیظ نے مڈوکٹ پر اونچا شاٹ کھیلا لیکن سلمان آغا کی طرح صائم ایوب بھی کیچ پکڑنے میں ناکام رہے اور وہیں سے میچ قلندرز کے ہاتھوں میں چلا گیا۔

اس کے بعد ہر گیند کے ساتھ حفیظ کی ٹائمنگ بہتر ہوتی گئی اور میچ گلیڈی ایٹرز کے ہاتھوں سے پھسلتا چلا گیا۔ حسنین کی گیند پر ٹام بینٹن نے فخر زمان کا کیچ بھی چھوڑا لیکن اس وقت تک میچ قلندرز کے لیے آسان ہوچکا تھا۔

اس میچ کی خاص بات سرفراز احمد کا فیلڈنگ کے دوران رویہ رہا۔ سرفراز قومی ٹیم اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی قیادت کے دوران ہمیشہ سے کھیل میں مکمل طور پر انوالو رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اس دوران فیلڈرز کو ہر گیند کے بعد بدلنا، باؤلرز کے پاس جاکر انہیں سمجھانا، کسی موقع پر غصہ بھی کر جانا، یہ سرفراز کی کپتانی کا حصہ رہا ہے اور اسی طریقے سے سرفراز نے کامیابی بھی حاصل کی ہے۔

سرفراز احمد کا غیر معمولی رویہ

لیکن آج یہ سب بہت زیادہ ہوگیا تھا، عثمان شنواری اور انور علی پر سرفراز باقاعدہ چلاتے بھی نظر آئے اور اس دوران وقفے میں معین خان اور عمر گل سرفراز احمد کو سمجھاتے ہوئے بھی نظر آئے۔ سرفراز احمد کا یہ رویہ ٹی وی کمنٹری پر بھی زیرِ بحث رہا اور اب شاید سوشل میڈیا پر بھی کافی زور پکڑے گا۔

سرفراز احمد کے اس رویے کی جو بھی وجہ ہے وہ سرفراز احمد ہی سب سے بہتر جانتے ہیں لیکن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور سرفراز احمد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اگلے میچ سے قبل مکمل طور پر پُرسکون ہوجائیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کو 2 مسلسل شکستوں کا سامنا ہے اور پچھلے سال بھی آخری 6 میں سے گلیڈی ایٹرز صرف ایک میچ جیت سکے تھے جبکہ ایک میچ بارش کی نذر ہوا اور 4 میں شکست ہوئی۔

اسی گہما گہمی میں سرفراز احمد سے کپتانی میں کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔ محمد نواز کا سابقہ ریکارڈ محمد حفیظ اور فخر زمان کے خلاف بہت اچھا ہے اور آج بھی وہ اچھی باؤلنگ کر رہے تھے لیکن ان کو اس پارٹنرشپ کے دوران باؤلنگ ہی نہیں دی گئی۔ سرفراز احمد کی کپتانی کا اپنا ایک طریقہ ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں لیکن آج ایک الگ ہی سرفراز نظر آئے جنہیں دیکھنا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور سرفراز احمد کے چاہنے والوں کے لیے ایک اچھا منظر نہیں تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Martin Masih Feb 23, 2021 02:44pm
سرفراز بہترین ٹی 20 کپتان اور چمپئنز ٹرافی کے فاتح ہیں۔ یہ ان کی کپتانی کا انداز ہے۔