کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کراچی کو ہدایت کی ہے کہ جعلی مقابلوں میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری کا آغاز اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے 22 سالہ فضل احسان اور 30 سالہ مزمل بیگ کے خلاف پولیس مقابلے کو مشکوک قرار دے دیا۔

سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے اے ٹی سی جج نے دونوں فریقین سے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد دو الگ الگ مقدمات میں محفوظ اپنے فیصلے سنائے۔

مزید پڑھیں: کراچی: پولیس افسر کے قتل کے الزام میں گرفتار 5 ملزمان بری

جج نےکراچی پولیس چیف کو ہدایت کی کہ وہ ان پولیس افسران کے خلاف کارروائی کریں جو عدالت کے روبرو جھوٹی گواہی دیتے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی سے متعلق عدالت کو مطلع کریں۔

جج نے جیل حکام کو بھی حکم دیا کہ اگر ملزمان کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔

فیصلے میں جج نے لکھا کہ استغاثہ کے گواہوں کے شواہد پر انحصار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے پیش کردہ مواد میں تضادات ہیں۔

جج نے نوٹ میں کیس کو مشکوک قرار دیا اور ریمارکس دیے کہ استغاثہ کا فرض ہے کہ وہ پہلے کیس کو قابل اعتماد شواہد کی بنیاد پر قائم کرے اور اس کے بعد ہی ملزم پر بوجھ ڈالے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ موجودہ معاملے میں استغاثہ ایسا کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹریفک پولیس اہلکار قتل کیس: عدم ثبوت پر سابق ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی بری

مقدمے کی سماعت کے دوران عباسی شہید ہسپتال کے اس وقت کے میڈیکل لیگل افسر ڈاکٹر عابد ہارون نے گواہی دی کہ ملزمان کو لگنے والی چوٹیں کم رفتار والے ہتھیار سے لگی جو چار سے پانچ فٹ کے فاصلے سے استعمال کیا گیا۔

دوسری جانب استغاثہ نے دلائل دیے تھے کہ پولیس کے پاس سب مشین گن (ایس ایم جی) موجود تھی جو ایک تیز رفتار ہتھیار ہے اور کم سے کم 10 گز کے فاصلے کے ساتھ انکاؤنٹر ہوا۔

استغاثہ کے مطابق ہیڈ کانسٹیبل شکیل دیگر اہلکاروں کے ساتھ 12 ستمبر 2019 کو معمول کی گشت پر تھے جب انہوں نے موٹرسائیکل سوار دو افراد کو دیکھا۔

پولیس اہلکاروں نے انہیں روکنے کا اشارہ کیا لیکن ملزمان نے ان پر سیدھا فائر کردیا اور فرار ہونے کی کوشش کی۔

پولیس نے جوابی فائرنگ کی اور گولی سے ایک مشتبہ شخص کے پاؤں پر گولی لگی۔

بعد ازاں ملزم کی شناخت فضل احسان کے نام سے ہوئی جسے زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا لیکن اس کا مبینہ ساتھی عمران فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

عدالت نے اسی طرح ایک اور مقدمے میں مزمل بیگ کو بری کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹریفک سارجنٹ کی ہلاکت: دہشتگردی ایکٹ کے تحت کیس کی سماعت نہ کرنے کی اپیل مسترد

دونوں ہی کیسز میں ملزم کے وکیل مبشر حسین بھٹہ نے استغاثہ کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکلوں پر جعلی پولیس مقابلے کے مقدمات درج کیے گئے اس لیے عدالت ملزمان کو بری کرے۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں اس وقت کے ایم ایل او ڈاکٹر سید عمیر احمد اور پولیس کے بیان سے تضاد پایا گیا کہ مزمل بیگ کو دو میٹر سے زیادہ کی دوری پر تیز رفتار ہتھیار سے گولی ماری گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں