امریکا فوجی انخلا میں ناکام ہوا تو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، طالبان

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2021
طالبان نے گزشتہ ماہ بھی معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی شکایت کی تھی— فائل/فوٹو: اے ایف پی
طالبان نے گزشتہ ماہ بھی معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی شکایت کی تھی— فائل/فوٹو: اے ایف پی

افغان طالبان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے تازہ بیان کے بعد ردعمل میں انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا میں ناکامی کی صورت میں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ 'امریکا کو دوحہ معاہدے کے مطابق اپنا قبضہ ختم کر لینا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا کو افغانستان سے یکم مئی تک اپنی فورسز کا مکمل انخلا کرنا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: 'افغانستان سے یکم مئی تک فوجی انخلا مشکل ہے'

ذیبح اللہ مجاہد نے کہا کہ 'اگر وہ کسی بھی وجہ اور عذر کی وجہ سے ایسا نہیں کر پائے تو پھر وہ نتائج کے ذمہ دار ہوں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'افغانستان کے لوگ اپنا فیصلہ کریں گے'۔

قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن نے نیوز چینل 'اے بی سی' کو انٹرویو میں افغانستان کے حوالے سے ایک سوال پر کہا تھا کہ ان کی انتظامیہ طالبان کے ساتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے، جس کے تحت معاہدے پر مکمل عمل درآمد کی صورت میں یکم مئی تک مکمل فوجی انخلا ہوگا۔

بائیڈن نے کہا تھا کہ میں اس حوالے سے فیصلے پر کام کر رہا ہوں کہ کب فوج کو واپس بلانا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سابق صدر نے بہتر انداز میں معاہدہ نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں اور یہ عمل ابھی جاری ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ تمام فوجیوں کا یکم مئی تک افغانستان چھوڑنا مشکل فیصلہ ہوگا، ایسا ہوسکتا ہے لیکن بہت مشکل ہے۔

امریکی صدر کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب طالبان اور افغان حکومت سمیت خطے کے دیگر فریقین روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغان امن عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مذاکرات میں شریک ہونے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت، امریکا دوحہ معاہدے پر عمل نہیں کر رہے، طالبان کا الزام

طالبان نے گزشتہ ماہ بھی کہا تھا کہ افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادی گزشتہ برس طے پانے والے معاہدے پر عمل نہیں کر رہے جن میں قیدیوں کی رہائی اور غیر ملکی افواج کی بے دخلی شامل ہے۔

دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک سینئر رکن نے کہا تھا کہ قطری دارالحکومت میں بین الافغان بات چیت کے آغاز کے 3 ماہ میں تمام طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا، لیکن 5 ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود اب تک ایک بھی قیدی رہا نہیں ہوا۔

طالبان عہدیدار نے کہا تھا کہ امریکی حکومت کے ساتھ معاہدہ ہے اور ہم ان سے معاہدے کی پاسداری کی توقع کرتے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ نے جنوری میں صدارت سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ فروری 2020 میں ہونے والے دوحہ معاہدے پر نظرثانی کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 19 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہتری موقع قرار دیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ معاہدے کے چند ہفتوں بعد ہی بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا، تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔

امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے، تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔

مزید یہ کہ کابل میں جاری سیاسی بحران نے مذاکرات کو مزید تاخیر کا شکار بنادیا کیونکہ وہاں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے متنازع صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے پر فتح کا اعلان کردیا۔

بعد ازاں دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی بھی دیکھنے میں آئی تھی اور طالبان کے 6 قیدیوں کی آخری رکاوٹ دور ہونے کے بعد قطر کی وزارت خارجہ نے مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

اس حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'افغانستان کے فریقین کے درمیان یہ براہ راست مذاکرات انتہائی اہم ہیں اور افغانستان میں دیرپا امن کی جانب اہم قدم ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں