A real life Veer Zaara 670
ممبئی کے نوجوان حامد انصاری، جو ایک پاکستانی دوشیزہ کی محبت میں اس حد تک دیوانے ہوئے کہ افغانستان کے راستے غیرقانونی طور پر سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوئے اور خفیہ اداروں کے ہاتھ لگ گئے۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

شاید آپ یہ خیال کریں کہ وہ ایک جاسوس تھا، یا کوئی تخریب کار، لیکن اگر وہ ان میں سے کوئی تھا تو اس نے ممبئی سے کوہاٹ پہنچنے میں اتنے مہینے کیوں صرف کیے اور محض دو دن میں ہی کیوں پکڑا گیا؟

ممبئی میں رہنے والے حامد انصاری کی فیس بک کے ذریعے پاکستان کی پشتون دوشیرہ کے ساتھ دوستی ہوئی، جو جلد ہی محبت میں بدل گئی۔

حامد انصاری جن کی عمر 26 برس تھی، وہ مینجمنٹ کے ٹیچر تھے۔ جبکہ پشتون دوشیزہ بی ایڈ کی طالبہ تھی۔ ایک سال کے عرصے میں انٹرنیٹ، فون اور فون میسنجرز کے ذریعے وہ ذہنی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب آتے گئے۔ ایک روز حامد کو اس نے روتے ہوئے فون کیا۔

اس نے اپنی بہن کو آن لائن محبت کے حوالے سے اعتماد میں لیا تھا، لیکن اس کی بہن نے اپنے والدین سے اس کے بارے میں سب کچھ بتادیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کی فوری طور پر شادی کردینی چاہئیے۔ یہ اس کی آخری فون کال تھی، اس کے بعد وہ فیس بک سے بھی غائب ہوگئی۔

پریشانی میں مبتلا حامد نے اس لڑکی کو تلاش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، ان کا کوہاٹ کی ایک دوسری لڑکی سے رابطہ ہوا اور انہوں نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

بالآخر تھک ہار کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کوہاٹ کا ویزہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ انہوں نے کئی مرتبہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کو فون کیا۔

روٹری کلب کے رکن کی حیثیت سے انہوں نے پشاور میں روٹری کلب کی جانب سے پشاور اور کوہاٹ میں نوجوانوں کے ساتھ رابطے کے لیے ایک باضابطہ دعوت نامے کا بندوبست کیا۔ لیکن اس سے بھی ان کو ویزہ کے حصول میں مدد نہیں مل سکی۔

پھر انہوں نے پاکستان انڈیا پیپلز فورم برائے امن و جمہوریت کے جیتن ڈیسائی سے ملاقات کی، کہ شاید وہ ویزہ کے حصول میں ان کی مدد کرسکیں۔ جیتن نے بتایا کہ کوہاٹ کا ویزہ حاصل کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوہاٹ اس علاقے کا مرکزخیال کیا جاتا ہے، جہاں شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ اور اس کے علاوہ یہ علاقہ غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ تم اس لڑکی کو بھلا دو۔

جیتن نے دیکھا کہ حامد اس لڑکی کے عشق میں پاگل ہوا جارہا ہے اور اس لڑکی کے لیے اس نے دیگر باتوں کو سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

پھر حامد نے اپنے والدین کو آمادہ کیا کہ وہ کابل ایئرپورٹ پر جاب انٹرویو کے لیے نومبر 2012 کو کابل جارہا ہے۔ ایک ہفتے ہی کے بعد اس کا فون بند ہوگیا۔

جب انہیں اپنے بیٹے حامد کی کوئی خبر نہ ملی تو انہوں نے اس کا کمپیوٹر کھولا، اور دیکھا کہ وہ اپنے فیس بک کے اکاؤنٹ اور ای میل سے لاگ آؤٹ نہیں کرسکا تھا، انہوں نے اس کی فیس بک پر کی گئی سینکڑوں چیٹ پڑھی، اور پھر بہت سارے ٹکڑوں کو جوڑنے کے بعد ان پر اصل حقیقت منکشف ہوگئی۔

تین پاکستانی آن لائن فرینڈز نے حامد پر زور دیا تھا کہ وہ غیرقانونی طور پر پاک افغان سرحد پار کرکے کوہاٹ بذریعہ کابل پہنچیں۔ انہوں نے ناصرف حامد کی اس سلسلے میں حوصلہ افزائی کی تھی بلکہ تفصیلی ہدایات بھی فراہم کی تھیں اور انہیں ایسا کرنے پر اُکسایا تھا۔

حامد کے اکاؤنٹ سے ان کے والدین کو کوہاٹ میں ایک اردو میگزین دستک سے منسلک ایک گرافک ڈیزائنر عطاءالرحمان کے بارے میں علم ہوا۔ ایک شازیہ خان تھیں، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام آباد میں میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ایک پراسرار سی محترمہ تھیں صبا خان۔

شازیہ خان اور حامد انصاری کے درمیان ہونے والی انٹرنیٹ پر بات چیت سے ایک اقتباس:

شازیہ خان: ان دنوں تمہارے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ تم اس کے بجائے افغانستان کا ویزہ حاصل کیوں نہیں کرلیتے؟ اور کابل سے تم پاکستانی سرحد طورخم پہنچ جانا، پھر میں تمہیں وہاں سے کرک یا کوہاٹ لے آؤں گی۔ اس کے علاوہ لقمان نے بھی تم سے کہا تھا کہ تمہیں کابل کے راستے آنا چاہئیے۔ کابل سے طورخم کا فاصلہ صرف 150 کلومیٹر ہے۔

A real life Veer Zaara1 670
حقیقی زندگی کی اس ویرزارا کی کہانی میں ہیروئن کی شادی ہوچکی ہے، اور ہیرو خفیہ ایجنسیوں کی حراست میں ہے۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

حامد: کوہاٹ کے لیے ویزہ کا حصول بہت دشوار ہے، لیکن لاہور کے لیے آسان ہے۔ میں پاکستانی ہائی کمیشن، دہلی میں کئی لوگوں سے اس بارے میں بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے ایک دعوت نامے کی ضرورت ہے یا پھر وزارت داخلہ کی جانب سے کلیئرنس کی۔ ویسے جلال آباد میں بھی میرا ایک دوست ہے۔

شازیہ: جلال آباد، پشاور سے محض 50 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

حامد: میں نے جلال آباد کے راستے پشاور جانے کے بارے میں اپنے دوستوں سے مشورہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں نگرانی بہت سخت ہے اور اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ میں پکڑا جاؤں گا۔ پاکستانی ویزے کے بغیر دوبارہ افغانستان میں داخل ہونا بھی بہت مشکل ہوگا۔ یہ زیادہ آسان ہوگا کہ میں لاہور کا ویزہ حاصل کرلوں۔ میرا ایک دوست سندھ میں بھی ہے، وہ کہتا ہے کہ تم کسی طرح ایک بار لاہور پہنچ جاؤ، تو وہ مجھے کوہاٹ کے لیے ویزہ ایکسٹینشن دلوادے گا۔ لیکن اس سے پہلے مجھے لاہور کا ویزہ حاصل کرنا ہوگا۔ میں ہر قسم کا رسک لینے کے لیے تیار ہوں۔

شازیہ: اوہو۔ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے وقت کوئی چیکنگ نہیں کی جاتی۔ میں تمہیں اپنی کار میں پشاور لے آؤں گی۔ اس کے علاوہ میں تمہارے لیے پاکستان یا افغانستان کا آئی ڈی کارڈ بھی حاصل کرلوں گی۔

حامد: چلو اب تم ہی بتاؤ کہ مجھے کیا کرنا چاہئیے۔

اور یہ رومن اردو میں کی جانے والی چیٹ کا اقتباس ہے، جو مس صبا خان اور عطاءالرحمان کے درمیان ہے۔ حامد نے انہیں عطا بھائی لکھا تھا۔ حامد گوکہ آن لائن نہیں تھا، لیکن اس چیٹ میں اس کو سی سی ایڈ کیا گیا تھا۔

عطا: میں نے انہیں کامران خان (فون نمبر) سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، کہ انہیں فون کریں اور دیکھیں کہ وہ کوئی مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہونا چاہئیے کہ حامد ہندوستانی ہیں۔ اگر کسی کو یہ معلوم ہو گیا تو بہت بڑی گڑبڑ ہوسکتی ہے۔

صبا خان: میں بھی کچھ لوگوں کے نمبرز تمہیں دوں گی، کیا یہ مددگار ہوں گے؟ میں نے کہ نمبر فرنٹیئر کور کے ایک بندے سے لیے ہیں، اور ہاں ہمارے علاوہ  کوئی بھی نہیں جانتا کہ حامد ہندوستانی ہے۔اس بارے میں بے فکر رہو۔

عطا: ٹھیک ہے، میں اس بندے کو فون کروں گا۔ مجھے کچھ لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ کابل سے پاکستان آنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اب تم لوگ کابل ایئرپورٹ پر کسی ٹیکسی ڈرائیور کا بندوبست کرلو۔ وہاں کوئی چیکنگ نہیں ہوتی۔ ایسا صرف واپسی کے راستے پر ہوتا ہے، جہاں 10 چیک پوائنٹس ہیں۔ تم کیا مشورہ دیتی ہو؟ اس بندے نے مجھے یہ بھی کہا تھا کہ یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور یا کسی بھی فرد کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہئیے کہ تم سرحد پار کرنے جا رہے ہو۔ٹیکسی ڈرائیور طورخم پر چھوڑ دے گا۔

یہ بات چیت عطا اور حامد کے درمیان ہے:

عطا: مہربانی کرکے میرے کہے کا بُرا نہیں منانا، لیکن تم بہت سست ہو۔ اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتا تو اب تک بہت کچھ کر چکا ہوتا۔

حامد: میں جانتا ہوں، لیکن یہ تاخیر میں نے جان بوجھ کر کی ہے۔ اور یہ ساری گڑبڑ ان کی بہن کی وجہ سے ہوئی۔ اور یہ سب کچھ بہت تیزی کے ساتھ ہوا۔ اور اس کے بعد ویزہ کا مسئلہ۔ یہ ہائی کمیشن اتنی جلدی لوگوں کو ویزہ نہیں جاری کرتے۔

عطا: اب زیادہ دیر نہیں ہونی چاہئیے۔

انہوں نے 12 نومبر کو صبا خان کے نام  ایک ای میل بھیجی تھی، اس ای میل کا آئی پی ایڈریس ظاہر کررہا تھا کہ اس کو پاکستان کے کسی علاقے سے ارسال کیا گیا ہے۔ یہاں اس ای میل سے اقتباس جو رومن اردو میں لکھی گئی تھی۔

”سنو میں یہاں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ میں یہاں عطا بھائی کے ساتھ ہوں۔ رات گئے تک میں یہاں پہنچ گیا تھا، لیکن سب کچھ ٹھیک رہا۔ ابھی بہت کم درجے کی جگہ پر ہوں۔ مجھے شام تک ایک نیا موبائل مل جائے گا، تمہیں اس کا پتہ چل جائے گا۔ لیکن کچھ ظاہری وجوہات کی بنا پر میں تمہیں فون نہیں کرسکوں گا۔

اپنا خیال رکھنا۔ انشاءاللہ ہم دونوں ایک ساتھ یہاں سے واپس جائیں گے۔ ہمارے لیے دعا کرنا۔“

حامد انصاری کی والدہ ممبئی کے ایک کالج میں لیکچرار ہیں اور ان کے والد ایک بینکر ہیں۔ انہوں نے ان تمام لوگوں کو ای میل کی، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔ بہت سے فون نمبرز جو چیٹنگ میں دیے گئے تھے، پر کال بھی کی، لیکن انڈیا کا نمبر دیکھ کر فون کال کاٹ دی گئی۔

پھر حامد کی والدہ مسز فوزیہ انصاری نے دبئی میں مقیم اپنے عزیز سے عطاءالرحمان اعوان کو کال کروائی۔ جو ریسیو کرلی گئی۔ عطا نے کہا کہ انہوں نے ایک ڈھابے میں حامد کے قیام کا بندوبست کیا تھا، جہاں وہ دو دن تک رہے لیکن پھر انہیں خفیہ ایجنسی والے پکڑ کر لے گئے۔ ان کے بقول انہوں نے کوہاٹ میں مقامی صحافیوں سے رابطے کا انتظام کیا، اُس وقت وہ حامد کو ان کے گھر واپس پہنچانے کے لیے مدد کرنے میں کافی پُرجوش نظر آئے ۔

انہوں نے عطاء الرحمان کو بتایا کہ ایجنسی کے لوگ انہیں اُٹھا کر لے گئے ہیں، اور وہ اس سے زیادہ فون پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ایک صحافی جنہوں نے عطاءالرحمان سے ملاقات کی تھی، کے علاوہ ایک یونیورسٹی اسٹوڈنٹ بھی حامد کے ساتھ رابطے میں تھا۔

مذکورہ صحافی نے جو انہیں بتایا تھا، ان دونوں نے بھی یہی کہا کہ ایجنسی انہیں اُٹھا کر لے گئی ہے اور ان سے بھی حامد کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

کوہاٹ کے ایک صحافی نے کہا کہ وہ مزید فون پر کچھ نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی مدد کرسکتے ہیں، اس لیے کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔

لاہور کی ایک صحافی جنہوں نے اس اسٹوری میں دلچسپی ظاہرکی، نے کہا کہ وہ ڈھابہ جہاں حامد انصاری نے قیام کیا تھا، پلوشے کہلاتا تھا۔

لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر کوئی  رپورٹ شایع نہیں کراسکیں گی، اس لیےکہ ایجنسی کا معاملہ ہے، احتیاط کرنی پڑتی ہے۔

حامد انصاری نے ایک بہت بڑی غلطی کی تھی، لیکن اس کے آن لائن پاکستانی فرینڈز کے بارے میں ہر ایک کو زیادہ ہی غصہ تھا، جنہوں نے اس کو یہ احمقانہ مشورہ دیا کہ کابل کے راستے کوہاٹ پہنچو اور لڑکی کو اپنے ہمراہ لے کر ممبئی واپس چلے جاؤ۔

حامد کے ذہن پر فلم ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ کی کہانی چھائی ہوئی تھی، وہ سمجھتے تھے کہ لڑکی کے والد باآسانی اسے لڑکی کو لے جانے کی اجازت دے دیں گے۔

اس چیٹ میں لڑکی کے والد کا ایڈریس اور فون نمبر بھی موجود تھا، میں نے انہیں فون کیا، انہوں نے غصے میں بھرے لہجے میں وہی جواب دیا کہ جو کوئی بھی باپ ایسے کسی معاملے میں کہہ سکتاتھا: ”اس کا کوئی دوست نہیں۔ نہ ہی یہاں کوئی آیا تھا۔ اس کی اب شادی ہوچکی ہے۔“

شاید پاکستانی ایجنسیاں یہ خیال کرتی ہیں کہ وہ ایک ہندوستانی جاسوس ہے، انہیں شبہ ہے کہ وہ افغان سرحد پر پاکستان کے حوالے سے انڈیا کی مبینہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔

لیکن دوسری جانب ہندوستانی تفتیش کاروں کو لگتا ہے کہ اس نے شاید ہندوستان مخالف سرگرمیوں کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ اس کی طویل چیٹنگ کا مطالعہ کرنے کے بعد میں قائل ہوگیا ہوں کہ وہ محض ایک سیدھا سادا نوجوان تھا جو ایک اندھی محبت میں مبتلا ہوگیا تھا۔

بہت سے ہندوستانی لوگ  پشتونوں کی خوبصورتی سے سحرزدہ ہوجاتے ہیں، حامد بھی انہی میں سے ایک تھا۔

حامد کو لاپتہ ہوئے دس مہینے گزر گئے ہیں۔ غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے کی زیادہ سے زیادہ سزا چھ ماہ کی جیل ہے۔

جس کسی کے پاس بھی حامد زیرحراست ہیں، انہیں چاہئیے کہ وہ اس جدید دنوں کی ”ویرزارا“ کا اختتام کریں اور سرحد پار محبت کرنے والے اس اسٹار کو اس کے گھر بھیج دیں۔

انگریزی سے ترجمہ۔ تحریر: شیووم وج

تبصرے (0) بند ہیں