کاروانِ صحت ذہنی امراض کا شکار 96 فیصد مستحق مریضوں کو بلامعاوضہ صحت کی سہولیات فراہم کررہا ہے

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ 36 لاکھ افراد کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کے ذہنی امراض کا سامنا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی میں ہی 20 لاکھ افراد ذہنی، جذباتی، فکری یا معاشرتی مسائل کا شکار ہیں۔

ان خطرناک اعدادوشمار کے باوجود نظام صحت میں ذہنی صحت شرمناک حد تک نظرانداز اور غیرمستحق شعبہ ہے۔

گوکہ معمولی افسردگی، اضطراب اور گھبراہٹ کے حملوں سے لے کر شدید دماغی عارضوں شیزوفرینیا اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر جیسی بیماریوں کا شکار متعدد افراد بدنامی کے خوف سے اس بیماری کے حوالے سے خاموشی اختیار کرتے ہوئے اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں جبکہ دیگر افراد مالی و معاشی مجبوریوں کی وجہ سے کچھ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

کارروانِ حیات کس طرح مدد کررہا ہے؟

38 سال سے زائد عرصے سے کارروانِ حیات کا انسٹی ٹیوٹ برائے مینٹل ہیلتھ کیئر پاکستان میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔

دماغی صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں سروسز کی فراہمی کے درمیان موجوف خلا کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروانِ حیات بنیادی طور پر معاشرے کے پسماندہ اور اس نظام صحت کی جانب سے نظرانداز کیے گئے افراد کی وکالت و حمایت کرتا ہے۔

دماغی صحت کی دیکھ بھال کا انسٹیٹیوٹ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر مستحق مریض کو مستقل بنیادوں پر معیاری ذہنی صحت کی سروسز فراہم کی جائیں جبکہ ذہنی طور پر پریشان افراد کی مدد، علاج اور بحالی (rehabilitation) کے لیے مستقل کوششوں کا عمل جاری ہے۔

جہاں ایک جانب 96 فیصد ضرورت مند مریض علاج اور بحالی کی سروسز مفت یا انتہائی رعایتی قیمت پر حاصل کرتے ہیں، وہیں کارروانِ حیات میں زیر علاج 85 فیصد مریضوں کی علامات میں نمایاں کمی آئی اور ہسپتال کے احاطے سے جانے کے بعد بیماری کی علامات دوبارہ ظاہر ہونے کے بہت کم واقعات سامنے آئے۔

انسان کو عمر کے دوسرے حصے میں متاثر کرنے والی عارضہ قلب یا ذیابیطس جیسی دیگر غیر معمولی بیماریوں کے برعکس ذہنی بیماری اکثر لوگوں کو ان کے زندگی کے بہترین دور میں زیادہ متاثر کرتی ہے۔

کارروانِ حیات میں فراہم کردہ سروسز صحت کے علاج اور طریقہ کار کے بین الاقوامی معیار کے عین مطابق ہیں، یہ جدید فارماکولوجی اور معاشرے کی نئی سوچ کو اپناتی ہیں جس نے ناصرف علاج کو انتہائی جامع اور مؤثر بنا دیا ہے بلکہ مریض کی عملی زندگی میں واپسی کا راستہ بھی ہموار کردیا ہے۔

جب کارروانِ حیات کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جناب ظہیر الدین بابر سے اس سفر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ کاروان حیات کے پہلے کلینک نے جولائی 1983 میں کراچی کے علاقے پنجاب کالونی سے کام کا آغاز کیا تھا، یہ ڈاکٹر ظفر قریشی کا تصور تھا جو اس وقت لیاقت جنرل ہسپتال میں شعبہ نفسیات کے سربراہ تھے، وہ مصائب کا شکار غریب نفسیاتی مریضوں کی حالت زار سے انتہائی پریشان تھے کیونکہ وہ علاج کا معاوضہ ادا کرنے کے متحمل نہیں تھے لہٰذا انہوں نے ان کی مدد کے لیے ایک مفت کلینک قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی کی دیگر اہم اور بااثر شہریوں کے ہمراہ بیگم لیاقت علی خان بھی کارروانِ حیات کے بانی ڈائریکٹرز میں شامل تھیں، آج کارروان حیات کا کیماڑی میں 100 بستروں کا ہسپتال اور بحالی یونٹ کام کررہا ہے جبکہ جامی میں مریضوں کے لیے ایک سہولت اور کورنگی میں کمیونٹی نفسیاتی مرکز بھی کام کررہا ہے۔

کووڈ-19 کی وبا کے دوران کاروان حیات کی سہولیات

پاکستان پہلے ہی معاشی محاذ پر عدم توازن کا شکار ہے جبکہ کووڈ-19 کی وبا نے اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

پہلے سے موجود صحت کی دیکھ بھال کے کمزور اور خوفناک حد تک ناکافی بنیادی ڈھانچے کے بعد مستقبل کے طبی خطرات کے خوف نے اس وائرس کی وجہ سے گھروں میں محصور افراد میں اضطراب اور خوف و ہراس کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے۔

اس سے قبل ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت کبھی بھی اتنی زیادہ محسوس نہیں کی گئی تھی۔

خوش قسمتی سے کاروانِ حیات کی انوکھی خصوصیات میں سے ایک اس کا نفسیاتی بحالی کا پروگرام ہے جو روزانہ کی بنیاد پر علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے طور پر چلتا ہے اور اس میں نفسیات، خاندانی نفسیاتی تعلیم اور کیس مینجمنٹ شامل ہیں۔

مریضوں کو باقاعدہ معمولات زندگی میں واپس لانے کا اہل بنانے کے مقصد کے تحت بحالی کا یہ عمل ثبوت کی بنیاد پر کام کرنے والے پروگرام کے طور پر چلتا ہے جسے امریکا کی رُٹجرز یونیورسٹی کے فیکلٹی اراکین نے متعارف کرایا اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہ سکھانے کے ساتھ ساتھ نگرانی بھی کررہے ہیں۔

مریضوں میں زندگی کی مفید مہارت پیدا کرنا

کارروانِ حیات میں مریضوں کے لیے فنون اور دستکاری، یوگا اور جسمانی ورزش جیسی انمول مہارت کے ساتھ میوزک ٹریننگ، کمپیوٹر ٹریننگ، سلائی، بیوٹیشن ٹپس، لائبریری سیشن، کھانا پکانے کی کلاس اور باغبانی جیسی سرگرمیوں کو بھی ازسرنو متعارف کرایا جاتا ہے۔

مریض زندگی کی پیشہ ورانہ مہارت حاصل کرتے ہیں اور کبھی کبھار انسٹی ٹیوٹ میں موجود پناہ گزین ملازمت کے اہل بھی ہوجاتے ہیں۔

ظہیر الدین بابر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کے حقوق اور ضروریات کا خیال رکھنے کے سلسلے میں معاشرے کو بڑے پیمانے پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں ذہنی بیماریوں کا شکار 76 سے 85 فیصد افراد اپنی بیماری کا کوئی علاج نہیں کرتے ہیں، صحت عامہ کے اداروں کے تعاون کے ساتھ ساتھ ذہنی بیماریوں کا شکار افراد کو معاشرتی مدد اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وہ خلا ہے جو کاروانِ حیات ذہنی بیماریوں کے بروقت، پیشہ ورانہ اور دیکھ بھال کے حامل علاج اور مریضوں کی بحالی کے عمل کے ذریعے پُر کرنے کا خواہشمند ہے تاکہ مریض معاشرے میں رہ سکیں اور متحرک رہیں۔

اس حوالے سے درپیش چیلنجز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ذہنی بیماری سے وابستہ شرم اور ہچکچاہٹ کاروانِ حیات کے لیے سب سے بڑا چیلنج رہا ہے اور اس نے اس نفی کو روکنے کے لیے مستقل طور پر کوشش کی ہے، ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار افراد کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے عزم کی بدولت کاروانِ حیات نے ہزاروں لوگوں میں اُمید کی کرن جگا دی ہے۔

آپ کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟

کارپوریٹ شعبے اور مالی طور پر مستحکم افراد ناصرف کاروانِ حیات جیسے اداروں کے علاج معالجے کے پروگرام میں مدد کر سکتے ہیں بلکہ ان مریضوں کی پیشہ ورانہ تربیت کو بھی یقینی بناتے ہیں جو صحت بخش زندگی میں ان کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اگر آپ اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو کاروانِ حیات سے مندرجہ ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:

کاروانِ حیات نفسیاتی نگہداشت اور بحالی مرکز، کے پی ٹی ہسپتال کے قریب اور ضیا الدین ہسپتال، کیماڑی، کراچی

یو اے این فون نمبر : 111-534-111 (021)

ای میل: [email protected]

ویب سائٹ: www.keh.org.pk


یہ تحریر، کاروانِ حیات کی جانب سے ایک اشتہار ہے اور مذکورہ خیالات ڈان ڈاٹ کام یا اس کے ادارتی عملے کی عکاسی نہیں کرتے۔