لوگوں کو کورونا سے بچانے والے ’سُپر ہیروز‘

01 مئ 2021
ایکسپو سینٹر کراچی میں قائم آئسولیشن سینٹر
ایکسپو سینٹر کراچی میں قائم آئسولیشن سینٹر

میں نے آئینے میں اپنا عکس دیکھا تو چونک کر رہ گیا۔

آئینے میں جو شخص نظر آرہا تھا اسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے آئینے میں رابن سن کروسو موجود ہو۔ 10 دن پہلے جب میں ایک ایمبولنس میں اسپتال پہنچا تھا تو میں ایک صحت مند اور کلین شیو آدمی تھا لیکن اس وقت آئینے میں ایک دبلا پتلا شخص نظر آرہا تھا جس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میرے پاس چونکنے کا جواز موجود تھا۔ میں نے اپنے ہیلپر سے درخواست کی کہ میرے بے ہوش ہونے سے پہلے مجھے واپس میرے بستر تک لے جائے۔

کورونا ایک حقیقت ہے اور آپ اس سے بچنے کی جتنی بھی کوشش کریں یہ کسی نہ کسی طرح آپ تک پہنچ ہی جائے گا۔ میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ مختصر ملاقاتوں میں بھی بہت محتاط رہتا تھا۔ میں ہر وقت ایک ماسک لگا کر رکھتا تھا اور دوسرا ماسک جیب میں رکھتا تھا تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے۔ اس کے علاوہ ایک ہینڈ سینیٹائزر بھی ہر وقت ساتھ رکھتا تھا اور لوگوں سے ہاتھ ملانے سے گریز کرتا تھا۔ لیکن کسی طرح میں بھی کورونا کا شکار ہوکر ایک نجی اسپتال میں پہنچ گیا جو بنیادی طور پر صرف اس وبا کی وجہ سے ہی چل رہا تھا (اور پیسے کما رہا تھا)۔

شکر ہے کہ اس نجی اسپتال میں داخل ہونے سے قبل میں نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے دوست ڈاکٹر فرجد سلطان سے رابطہ کیا۔ وہ سول اسپتال میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایکسپو سینٹر کراچی میں حکومت کی جانب سے کورونا مریضوں کے لیے قائم مرکز میں بھی رضاکارانہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس کا انتظام پاک فوج کے ذمے ہے اور یہاں حکومتی عملہ اور رضاکار موجود رہتے ہیں۔ ڈاکٹر فرجد اور ان کے ساتھی ڈاکٹر یہاں مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مصروف رہتے ہیں۔

مجھے معلوم تھا کہ کسی ایسے ڈاکٹر، جس کے لیے میں صرف ایک مریض تھا، کے حوالے ہونے سے بہتر ہے ایسے ڈاکٹر کے ساتھ رہا جائے جسے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ڈاکٹر فرجد کی ہی تجویز پر میرے گھر والوں نے مجھے نجی اسپتال سے ایکسپو سینٹر والے مرکز منتقل کیا جو ایک الگ ہی دنیا تھی۔

مزید پڑھیے: کورونا ڈائری: 28 دن کورونا وائرس سے لڑنے والے مریض کی کہانی

نجی اسپتال میں اپنے ڈیڑھ دن کے قیام کے دوران مجھے آئیسولیشن میں رکھا گیا کیونکہ میری آکسیجن کی سطح مسلسل کم ہورہی تھی۔ ایکسپو سینٹر میں مجھے ایک بڑے ہال میں لے جایا گیا جو کورونا مریضوں سے بھرا ہوا تھا اور حفاظتی لباس پہنے ہوئے ڈاکٹر اور نرسیں ان مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔ مجھے کورونا کے ساتھ ساتھ ہائی بلڈ پریشر سمیت کچھ دیگر بیماریاں بھی تھیں اور آکسیجن کی سطح بھی بہت کم تھی اس وجہ سے مجھے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا۔

وہاں مریضوں کے لیے اس طرح کے کئی وارڈز موجود تھے۔ میں نے زیادہ عرصہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں گزارا جس کے بعد مجھے دوسرے درجے کے وارڈ میں اور پھر بلآخر چھٹی سے 3 دن قبل سب سے کم خطرے کی حالت والے مریضوں کے وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔ ہر وارڈ کے لیے ڈاکٹروں، نرسوں، ہیلپرز اور خاکروبوں پر مشتمل عملہ مختص تھا جو مریضوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ کچھ مریض بہت زیادہ تعاون کرتے تھے اور کچھ بالکل نہیں کرتے تھے، اس کا انحصار ان کی عمر، حالت اور طبّی عملے کی باتیں سمجھنے کی صلاحیت پر ہوتا تھا۔

اس مرکز میں تمام مریضوں کو بلا تعطل آکسیجن فراہم کی جارہی تھی۔ وقفے وقفے سے مریضوں کے ایکسرے کیے جارہے تھے، روزانہ یا ہر دوسرے دن ان کے خون کے ٹیسٹ بھی کیے جاتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مریضوں کا خیال اس طرح رکھا جاتا تھا جیسے وہ اپنے علاج کے پیسے دے رہے ہوں۔

وہاں کچھ ایسے بزرگ مریض بھی موجود تھے جن کے بچوں نے انہیں یہاں داخل کروا دیا تھا تاکہ انہیں اپنے والدین سے وائرس نہ لگ جائے، دیگر مریض اس لیے یہاں آئے تھے کیونکہ نجی اسپتال ان کی حالت سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اور کچھ مریض میری طرح تھے جو نجی اسپتال سے بھی تنگ تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی وائرس سے بچانا چاہتے تھے۔

میرے لیے یہ بات بھی حیران کن تھی کہ مریضوں کو دن میں 3 وقت اعلیٰ معیار کا کھانا بھی دیا جارہا تھا۔ مریضوں کو ایک مختلف قسم کا سالن اور 2 چپاتی دی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی گرم سوپ بھی دیا جاتا تھا اور اگر مریض چاہے تو اسے چائے بھی فراہم کی جاتی تھی۔ میرے ہاتھوں میں مختلف طرح کی نلکیاں لگی ہوئی تھیں اس وجہ سے کھانے کا مزہ لینا مشکل تھا۔ لیکن پھر بھی ایک ایسی جگہ پر جہاں آپ کے رشتے دار اور دوست نہ ہوں وہاں یہ کھانا ایک مثبت چیز تھی۔

مجھے دنوں کا حساب بھی نہیں رہا تھا۔ موبائل فون کے بغیر (موبائل رکھنے کے لیے اجازت درکار ہوتی تھی) یہ جاننا مشکل تھا کہ نیوزی لینڈ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کیسی رہی، بھارت کی ٹیم کیسا کھیل پیش کر رہی ہے اور آے آر وائے ڈیجیٹل کے ڈرامے ڈنک میں کیا ہورہا ہے؟ فون رکھنے کی اجازت کے بعد بھی میں نے اسے بہت زیادہ استعمال نہیں کیا کیونکہ اس سے میرے ایک ہاتھ میں لگے کینولہ اور دوسرے ہاتھ میں لگے آکسی میٹر میں خلل پڑ رہا تھا۔

بہرحال کرکٹ کے شوقین ڈاکٹر فہد سے مجھے معلوم ہوا کہ مصباح الحق نے چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑ دیا ہے، بھارت نے برسبن میں آسٹریلیا کے خلاف تاریخی فتح حاصل کی ہے اور ڈنک پر بہت شدید ردِعمل آیا ہے۔

وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں مریضوں کی تعداد ڈاکٹروں سے کہیں زیادہ تھی اور یہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مریضوں کا بلا معاوضہ خیال رکھا جارہا تھا۔ مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے مختلف وردیوں میں ملبوس افراد کو دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی ایسی دنیا میں موجود ہیں جہاں سپر ہیروز کسی بھی مشکل کو حل کرنے کے لیے موجود رہتے ہیں۔ میں ہر طرح کی مشکلات کے باوجود خود کو وہاں محفوظ تصور کر رہا تھا۔ وہاں موجود سپر ہیروز نے کورونا کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ اسپتالوں سے اس طرح جنگ لڑی گویا یہ دونوں سپرمین میں موجود لیکس کارپوریشن ہوں۔

ڈاکٹروں کا انداز بہت شائستہ رہتا تھا۔ وہ مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے، ان مریضوں کی بھی جو ہر وقت شکایت کرتے رہتے تھے۔ بزرگ مریضوں کو کھانے سے متعلق شکایات ہوتی تھیں، درمیانی عمر کے افراد آکسیجن ماسک لگانے سے انکار کرتے تھے اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے اپنے ذہن میں اسی مرکز کو اپنا گھر بنا لیا تھا اور اب وہ واپس گھر نہیں جانا چاہتے تھے۔ اس مرکز میں کورونا کے کچھ مریض ہلاک بھی ہوئے لیکن ڈاکٹروں نے اپنا کام کرنا اور مریضوں کی جان بچانا جاری رکھا، اور میں بھی ان مریضوں میں شامل تھا۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ مجھے دی گئی ادویات کے کوئی سائڈ افیکٹ نہیں ہوتے لیکن کچھ راتیں ایسی بھی گزریں جب میں خود کو اسٹار ٹریک انٹرپرائز کے اندر یا مشن امپاسیبل کی کسی فلم میں تصور کرتا جہاں آکسیجن کے حصول کی جنگ جاری ہوتی۔ ایک مرتبہ تو میں ایک ایسے باغ میں پہنچ گیا جسے دیکھ کر پہلی مرتبہ جنت کا گمان ہوا لیکن ظاہر ہے وہ بس روشنی اور ادویات کا کمال تھا۔

صبح تک میں اپنے بستر پر واپس آگیا تھا اور کینولہ اور آکسی میٹر میں جکڑا ہوا تھا۔ میرے بستر کے قریب عملے کا ایک رکن کھڑا مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں جیسے کہ میں ساری رات اپنے بستر پر ہی رہا ہوں۔

وہاں 3 وقت کا کھانا ملنے کے باوجود بھی میرا وزن کم ہورہا تھا۔ میں نے 10 دن میں پہلی مرتبہ خود کو دیکھا تھا اور آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر چونک گیا تھا۔ اگر میری ویل چیئر کے ساتھ آکسیجن سلینڈر نہ لگا ہوتا تو شاید میں بے ہوش ہوجاتا۔ اس وقت لگنے والا ذہنی دھچکہ اس وقت تک محسوس ہونے والی جسمانی تکلیف سے کہیں زیادہ تھا۔

میں 2 ہفتوں بعد مسلسل 36 گھنٹوں تک خود سانس لینے کے قابل ہوا، اس وقت ڈاکٹروں نے مجھے خوش خبری سنائی کہ میں اب گھر جاسکتا ہوں۔ انہوں نے مجھے اسپتال میں لمبے عرصے تک رہنے کے اثرات سے بھی خبردار کیا۔ مجھے کھڑے رہنے اور چلنے میں مشکل پیش آرہی تھی، قبض کی شکایت نے گھر جانے کی خوشی کو کرکرا کردیا تھا اور مجھے اگلے ایک مہینے تک اسٹیورائیڈز سمیت کئی ادویات بھی کھانی تھیں۔ مجھے آج بھی سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے تاہم باقی اثرات اب ختم ہوچکے ہیں اور یہ اس عارضی اسپتال میں ہونے والی دیکھ بھال سے ہی ممکن ہوا ہے۔

اس اسپتال میں اپنے آخری دن ڈاکٹروں کو الوداع کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو بس آنے ہی کو تھے۔ جب مجھے چلنے میں دشواری ہونے لگی تو فوج کے غیر طبّی عملے کے ایک فرد نے آگے بڑھ کر مجھے سہارا دیا۔ وہاں موجود جونیئر ڈاکٹروں، نرسوں، ہیلپرز اور خاکروبوں کی وجہ سے ہی یہ دنیا ایک بہتر جگہ بنی ہوئی ہے ورنہ تو یہ کورونا کے آنے سے بہت پہلے ہی ختم ہوچکی ہوتی۔

یہ لوگ اس وبا کے خلاف ہمارے دفاع کی پہلی لکیر ہیں۔ ہم اس ضمن جو کم از کم کام کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس وبا کے حوالے سے بتائے گئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے ای و ایس میگزین میں 25 اپریل 2021ء کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں