چاند پر پہنچنے والے پہلے انسانی مشن اپولو 11 کے خلاباز مائیکل کولنز انتقال کرگئے

اپ ڈیٹ 29 اپريل 2021
وہ 20 جولائی 1969 کوچاند کی سطح پر پہنچنے والے مشن کا حصہ تھے—فوٹو: رائٹرز
وہ 20 جولائی 1969 کوچاند کی سطح پر پہنچنے والے مشن کا حصہ تھے—فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: چاند پر پہنچنے والے پہلے انسانی مشن اپولو 11 کے تیسرے خلاباز مائیکل کولنز 90برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق 20 جولائی 1969 کو جب اپولو 11 مشن چاند کی سطح پر پہنچا تھا تو نیل آرم اسٹرونگ اور بز الڈرین چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے انسانوں میں سے ایک تھے۔

تاہم اس وقت ان کے ساتھ معاون فلائٹ پائلٹ اور خلا باز مائیکل کولنز بھی موجود تھے جو چاند پر پہنچنے والے خلائی گاڑی 'ایگل' کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: چاند پر انسان کے قدم کو نصف صدی مکمل

گزشتہ روز ان کے اہل خانہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ مائیکل کولنز کی وفات کینسر سے ہوئی۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

مائیکل کولنز جنہیں اکثر اوقات تاریخی مشن کے 'بھلا دیے گئے' تیسرے خلاباز کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، وہ چاند پر پہنچنے کے بعد اپنے دونوں ساتھیوں کی واپسی تک 21 گھنٹے سے زائد دورانیے تک خلائی گاڑی میں تنہا رہے تھے۔

ہر مرتبہ جب خلائی گاڑی نے چاند کے تاریک حصے کے گرد چکر لگایا تھا تو ان کا ہوسٹن میں موجود مشن کنٹرول سے رابطہ منقطع ہوا تھا۔

مائیکل کولنز نے 1974 میں اپنی آٹوبایوگرافی 'کیرنگ دی فائر' میں اپنے تجربات کو بیان کیا تھا تاہم عوامی سطح پر اس کی زیادہ تشہیر نہیں کی گئی تھی۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

ناسا کی جانب سے 2009 میں جاری کیے گئے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ 'میں جانتا ہوں کہ میں جھوٹا یا بیوقوف ہوں گا اگر میں یہ کہوں گا کہ میرے پاس اپولو 11 کی 3 سیٹس میں سے بہترین موجود تھی لیکن میں سچائی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جو میرے پاس ہے میں مکمل طور پر اس سے مطمئن ہوں'۔

مائیکل کولنز 31 اکتوبر، 1930 کو روم میں پیدا ہوئے تھے اور اسی برس نیل آرم اسٹرونگ اور بز آلڈرین بھی پیدا ہوئے تھے۔

وہ ایک امریکی فوجی جنرل کے بیٹے تھے اور اپنے والد کی طرح وہ بھی نیویارک کے علاقے ویسٹ پوائنٹ میں واقع امریکی ملٹری اکیڈمی گئے تھے اور 1952 میں پاس آؤٹ ہوئے تھے۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

امریکی خلابازوں کی پہلی نسل میں شامل کئی افراد کی طرح مائیکل کولنز نے بھی ایئر فورس کے تربیتی پائلٹ کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔

1963 میں ناسا نے انہیں اپنے اسٹروناٹ پروگرام کے لیے منتخب کیا تھا جو اس وقت اپنے ابتدائی مراحل میں تھا لیکن سرد جنگ کے دوران تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا کیونکہ امریکا، سوویت یونین سے آگے نکلنا چاہتا تھا اور دہائی کے آخر تک چاند پر انسان کے قدم رکھنے کے اس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی کے صدر کے عزم کو پورا کرنا چاہتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مریخ پر اترنے والے ناسا کے خلائی مشن کی اولین کلر تصاویر جاری

انہوں نے خلا میں پہلا سفر جولائی 1966 میں جیمنائی ایکس کے پائلٹ کی حیثیت سے کیا تھا جو ناسا کے اپولو پروگرام کی تیاری کرنے والے مشنز کا حصہ تھا۔

جیمنائی ایکس مشن نے ایک علیحدہ ٹارگٹ گاڑی کے ساتھ کامیاب ڈاکنگ سرانجام دی تھی۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

مائیکل کولنز کا دوسرا اور حتمی خلائی سفر تاریخی اپولو 11 پر مشتمل تھا۔

انہوں نے میڈیا کی جانب سے زمین پر واپس آنے والے خلابازوں کو دی جانے والی مبارکبادوں سے گریز کیا تھا اور بعدازاں وہ مشہور شخصیات پر اکثر تنقید بھی کرتے تھے۔

مختصر سرکاری ملازمت کے بعد وہ نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم کے ڈائریکٹر بن گئے تھے اور 1978 میں عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے۔

وہ خلا کے موضوع پر تحریر کی گئیں کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔

انہوں نے ایک مرتبہ اپولو11 کے سفر کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ زمین کی جانب واپس دیکھ رہے تو وہ 'کمزور' نظر آئی۔

—فوٹو: رائٹرز
—فوٹو: رائٹرز

مائیکل کولنز نے کہا تھا کہ 'میرا ماننا ہے کہ اگر دنیا کے سیاسی رہنما ایک لاکھ میل کے فاصلے سے اپنے سیارے کو دیکھ سکتے تو ان کا نقطہ نظر بنیادی طور پر تبدیل ہوچکا ہوتا، وہ تمام اہم سرحدیں غائب ہوجائیں گی، وہ شور کرتی دلیل خاموش ہوجائے گی'۔

ان کے اہل خانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ مائیکل کولنز نے جو زندگی جی وہ اس پر خود کو خوش قسمت سمجھتے تھے۔

بیان میں کہا گیا کہ 'ان کے مقصد، ان کے دانشمندانہ نقطہ نظر کو یاد کرنے میں ہمارے ساتھ شریک ہوں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں