لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

اب جبکہ ایک سینئر اہلکار کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل رابطوں کی تصدیق کردی گئی ہے تو اب ان رابطوں کی نوعیت اور اثرات پر بات کرنا مناسب ہوگا۔

جوہری ہتھیار رکھنے والے دو ہمسائے ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کو ضرور سراہنا چاہیے لیکن ماضی میں ان کے درمیان معاملات میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جیسی صورتحال رہی ہے۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ ماضی میں سیکھے گئے سبق اور زمینی حقائق بشمول کشمیر میں بھارت کی جانب سے پیدا کیے گئے سخت حالات کو مدنظر رکھا جائے۔

بیک چینل رابطے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ جب بھی ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات معطل ہوتے ہیں تو ان بیک چینل رابطوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی جب پاکستان اور بھارت اعلانیہ مذاکرات میں ناکام رہے تو ان بیک چینل رابطوں کا استعمال ہوا۔ بیک چینل رابطے رازداری سے یہ جاننے اور اندازے لگانے کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں کہ دوسرا فریق کتنی لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ باضابطہ مذاکرات میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان مذاکرات میں عموماً طرفین ابتدا میں لچک دکھانے پر راضی نہیں ہوتے۔

جنرل مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والے بیک چینل رابطوں اور ایک عارضی سمجھوتے تک پہنچنے میں 3 سال کا عرصہ لگا تھا۔ یہ رابطے گزشتہ کچھ دہائی میں مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے سنجیدہ ترین کوشش تھی۔ یہ مذاکرات سرکاری عہدے داروں کے مابین ہوئے تھے جنہیں صدر پرویز مشرف اور وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔

حالیہ بیک چینل رابطوں کے بارے میں اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق دونوں ممالک کے انٹیلی جنس چیف کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ یہ گزشتہ بیک چینل رابطوں کی نسبت واحد فرق نہیں ہے۔ مشرف دور میں ہونے والی بات چیت سے دونوں ممالک نے باضابطہ مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔

6 جنوری 2004ء کو جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ’جامع مذاکرات کی بحالی دونوں ممالک کے درمیان جاری دو طرفہ معاملات بشمول مسئلہ کشمیر کے قابلِ قبول حل کا باعث بنیں گے‘۔ اس کے بعد ہونے والے بیک چینل رابطے دراصل ترجیحی معاملات پر ہونے والے باضابطہ مذاکرات کا ہی ایک لوازمہ تھے۔ ان مذاکرات میں شریک مذاکرات کاروں کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: پاک بھارت حکام کی دبئی میں مسئلہ کشمیر پر بات چیت

حالیہ بیک چینل رابطوں کے حوالے سے تفصیل پاکستانی حکام کی جانب سے سامنے آئی ہے اور بھارت کی طرف سے اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔ بھارت میں اس حوالے سے کوئی بیک گراؤنڈ بریفنگ یا لیک سامنے نہیں آئی۔ پاکستان کی جانب سے اس یکطرفہ اعلان سے یہ تاثر جاسکتا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے غیر معمولی دلچسپی رکھتا ہے۔ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حساس مذاکرات کے ابتدائی مرحلے پر ہی تفصیلات کا اعلان کرنا مناسب ہے خاص طور پر اس وقت کہ جب کسی چیز پر اتفاق ہی نہ کیا گیا ہو۔

چونکہ موجودہ رابطوں کو ’مذاکرات کے حوالے سے بات چیت‘ کہا جارہا ہے تو کچھ نکات کو مدنظر رکھنا فائدہ مند ہوگا۔

پہلا نکتہ

پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی مذاکرات کاروں کو یہ جانچنا ہوگا کہ بھارتی اقدامات فوجی نوعیت کے ہیں یا اسٹریٹجک نوعیت کے اور پھر اس حساب آگے بڑھنا ہوگا۔

ہمارے حکام کا دعویٰ ہے کہ بھارت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر جامع مذاکرات چاہتا ہے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف ایک لاحاصل مذاکرات ہوں گے جس میں بھارت مسئلہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے گا اور 5 اگست 2019ء کے اقدامات کے بعد پیدا ہونے والے اسٹیٹس پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔

دوسرا نکتہ

دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان کو اپنے اصولی مؤقف اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کچھ حدود کا تعین کرنا ہوگا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بھارت پاکستان سے یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ پاکستان کشمیر کے غیر قانونی الحاق کو ختم کرنے کے مؤقف کو ترک کردے گا۔

پاکستانی حکام کے مطابق ’کشمیریوں کو ریلیف فراہم کرنے‘ جیسے فوری مقاصد پر بھی گفتگو ہوگی۔ غالباً اس کے لیے اعتماد سازی کے طریقوں کی مدد لی جائے گی۔ بہرحال اس مقصد کو جامع مذاکرات سے علیحدہ رکھنے کے بجائے ان مذاکرات کا حصہ بنانا چاہیے۔ یہاں بھی ماضی کے تجربات کو سامنے رکھنا ہوگا۔

2004ء سے 2008ء کے دوران ہونے والے مذاکرات میں کشمیر کے حوالے سے طے شدہ اعتماد سازی کے اقدامات کشمیر پر ہونے والے مذاکرات کے متبادل نہیں تھے بلکہ ان کا حصہ تھے۔

مزید پڑھیے: بھارت سے بیک چینل رابطے پر ماہرین نے خدشات کا اظہار کردیا

تیسرا نکتہ

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بیک چینل رابطوں کو کسی بھی صورت نتیجہ خیز مذاکرات نہ سمجھا جائے۔ ایک طویل عرصے سے بھارت کا یہ مقصد رہا ہے کہ پاکستان کو کسی ایسے عمل میں الجھائے رکھے جس میں کسی بھی معاملے پر کسی نتیجے پر نہ پہنچا جائے اور پھر دنیا کے سامنے خود کو قابلِ قبول بنایا جائے۔

بھارت مسائل کو حل کیے بغیر دہشتگردی اور تجارت کو ترجیح دے کر حالات کو معمول پر لانا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس طرح کے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا سکون عارضی ثابت ہوگا۔ کشیدگی میں کمی لانا ایک بڑا مقصد ہے لیکن یہ حالات کو معمول پر لانے سے مختلف ہے۔ حالات کو معمول پر لانے کے لیے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالات معمول پر آنے میں وقت لگتا ہے اور یہ کشیدگی میں کمی آنے سے مختلف صورتحال ہوتی ہے۔

چوتھا نکتہ

چوتھا نکتہ یہ کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی بات چیت کے لیے بیک چینل کو واحد ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں باضابطہ اور جامع مذاکرات کو بحال ہونا چاہیے۔ بیک چینل رابطوں میں بھارت کی یہ تجویز ایک رسک ہوگی کہ معاملات کو ایک دوسرے سے نتھی نہیں کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح بھارت اپنے ترجیحی معاملات پر تو بات جیت کرے گا لیکن وہ جامع اور وسیع مذاکرات نہیں ہوسکیں گے جو پاکستان کی خواہش ہے۔

ٹریک ون امن مذاکرات کی بحالی بھی ضروری ہے کیونکہ صرف بیک چینل تک ہی محدود رہنے سے دوسرے فریق کو من مانے فیصلے کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان غیر رسمی مذاکرات میں فریقین کسی بھی وعدے کی پاسداری کے پابند نہیں ہوتے۔ معاملہ جو بھی ہو ٹریک ٹو کے دوران ہونے والے معاہدوں کو ’فرنٹ چینل‘ مذاکرات میں باضاطہ شکل دینی چاہیے۔ سفارتی مذاکرات کی ذمہ داری تجربہ کار سفارت کاروں کو ہی دینی چاہیے جو اس کام کی اہلیت رکھتے ہوں۔ وزارتِ خارجہ کو بھی بیک چینل رابطوں کے حوالے سے آگاہ رکھنا چاہیے اور ان سے مشورہ بھی کرنا چاہیے۔

پانچواں نکتہ

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا اعلان فریقین کی باہمی رضامندی سے اور صرف اس صورت میں ہونا چاہیے جب کوئی پیش رفت ہوجائے۔ اہم بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم اور آرمی چیف کی جانب سے مفاہمت کے بیانات کے جواب میں دوسری جانب خاموشی ہے۔

یہ صورتحال اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے بیک چینل پر کوئی بیان نہ دینا یہ تاثر دینے کی کوشش بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان اپنی اندرونی مجبوریوں اور کمزوریوں کی وجہ سے حالات معمول پر لانے کے لیے بے چین ہے۔ یہ صورتحال ان کچھ پاکستانی حکام کی جانب سے پیدا کردہ تاثر کو کسی حد تک درست ثابت کرتا ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی امن کے قیام کی واحد وجہ ملک کی کمزور معیشت ہے۔

آخری اور اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ معاملات میں پاکستان کو اپنی عزت اور وقار کو برقرار رکھتے ہوئے امن کے حصول کے اصول کو تھامے رکھنا ہوگا۔


یہ مضمون 03 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں