'پاکستان، افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھے گا'

اپ ڈیٹ 12 مئ 2021
پاکستان کے امریکی سفیر اسد مجید خان نے امریکا سے وسیع تر بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی اسلام آباد کی خواہش پر بھی زور دیا۔ - فائل فوٹو:رائٹرز
پاکستان کے امریکی سفیر اسد مجید خان نے امریکا سے وسیع تر بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی اسلام آباد کی خواہش پر بھی زور دیا۔ - فائل فوٹو:رائٹرز

واشنگٹن: پاکستان نے امریکا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔

واضح رہے کہ پیر کے روز نیوز بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کے پڑوسیوں پر زور دیا کہ وہ اس عمل کی حمایت کریں اور انہیں یاد دلایا کہ افغانستان میں انتشار جاری رہنا ان کے لیے خاص طور پر نقصان دہ ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ یقین دہانی امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان نے واشنگٹن میں امریکی قانون سازوں سے ملاقات کے دوران کرائی۔

ان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ 'انہوں نے امریکا سے وسیع تر بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کی اسلام آباد کی خواہش پر بھی زور دیا'۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پیر کو کابل کا دورہ کیا تھا اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے دوران طالبان سے سیاسی مذاکرات کے لیے پاکستان کی حمایت کی پیش کش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا طالبان، کابل سے مشترکہ طور پر داعش کا مقابلہ کرنے پر زور

ملاقات میں آرمی چیف کے ہمراہ برطانوی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل سر نک کارٹر بھی شریک تھے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں نیٹو کے تعینات 7 ہزار فوجیوں میں سے برطانیہ کے تقریباً 750 فوجی ہیں۔

پاکستانی میڈیا میں حالیہ رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ اسلام آباد نے طالبان کو جنگ بندی پر راضی کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔

محکمہ خارجہ کی نیوز بریفنگ میں ترجمان نیڈ پرائس نے طالبان اور افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ داعش کو جنگ سے تباہ حال ملک میں پہلے سے ہی کشیدہ صورتحال کو مزید خراب کرنے سے روکنے کے لیے جاری امن عمل میں سنجیدگی سے مشغول ہوں۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم ابھی بھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کون ذمہ دار ہے لیکن میں نشاندہی کروں گا کہ ماضی میں کابل میں اہل تشیع برادریوں پر بھی اسی طرح کے حملوں میں داعش ذمہ دار رہا ہے'۔

افغانستان کے دارالحکومت میں ہفتے کے روز اسکول پر حملے میں 80 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر طالبات تھیں۔

اس حملے کی پوری دنیا نے شدید مذمت کی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکیر نے دھماکے کو 'گھناؤنا اور بزدلانہ حملہ' قرار دیا جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس بات پر زور دیا کہ 'اس گھناؤنے جرم کے ذمہ داروں کو جوابدہ ہونا چاہیے'۔

مزید پڑھیں: افغانستان: بم دھماکے میں مسافر بس تباہ، 11 افراد ہلاک

تاہم امریکا نے مذمت سے ایک قدم آگے بڑھایا اور طالبان کی شمولیت سے انکار میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے ان سے تقریباً نصف صدی سے جنگ میں ملوث ملک میں امن قائم کرنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی۔

نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ 'طالبان نے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور ہم ان کے عید کی تعطیلات پر 3 روزہ جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم طالبان اور افغان رہنماؤں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امن کے جاری عمل میں سنجیدگی سے مشغول ہوں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ افغان عوام دہشت گردی اور تشدد سے پاک مستقبل کا لطف اٹھائیں'۔

واضح رہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ان کی تنظیم اس حملے میں ملوث نہیں ہے اور انہوں نے 'ظالمانہ اور بلاجواز تشدد' کی مذمت کی تھی۔

پیر کے روز طالبان نے 3 روزہ عید تعطیلات کے دوران جنگ بندی کا اعلان کیا جو رمضان کے ختم ہونے سے ایک روز قبل سے نافذ العمل ہوگا، طالبان کے مذکورہ اعلان کو نہ صرف امریکا بلکہ افغان حکومت نے بھی سراہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں