لکھاری شاعر ور تجزیہ نگار ہیں۔
لکھاری شاعر ور تجزیہ نگار ہیں۔

1970ء کی دہائی میں '100 بڑے آدمی' نامی کتاب نے ہم میں سے بہت سوں کو بڑے بڑے موجدین، تخلیق کاروں، مفکروں اور رہنماؤں سے متعارف کروایا۔

اس کتاب میں تابکاری اور ایکس ریز پر اپنے بنیادی تحقیقی کام کی وجہ سے شہرت پانے والے بالترتیب میڈم کیوری اور ولہیم رونگٹن کے علاوہ ریبیز (سگ گزیدگی) ویکسین کے موجد لوئس پاسچر کا تذکرہ بھی موجود تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بطور ایک قوم ہماری زندگیوں کے ساتھ ویکسینوں بلکہ یوں کہیے کہ ان کی قلت کا گہرا ناتا ہے۔

پولیو، جس کی ویکسین 7 دہائیوں پہلے ہی تیار کرلی گئی تھی، ہم ابھی بھی اس کے خاتمے کی جدوجہد میں لگے تھے کہ کورونا نے وار کردیا۔ جہاں دنیا ویکسین کی تیاری میں مصروف ہوئی وہیں اپنی محبوب عادت سے مجبور ہوکر ہم نے سازشوں سے ایک دوسرے کو خبردار کرنا شروع کردیا کہ ویکسین کے ذریعے ہمیں 'بے حیا' اور 'نامرد' بنانے کی چال چلی جا رہی ہے۔

ایک طرف ہمارے وزیرِاعظم دنیا کو غریب ملکوں کو قرض کی معافی اور ویکسین کی مفت فراہمی پر لیکچر دیتے رہے وہیں ہتھیاروں کے تجربے پر خرچہ بھی کرتے رہے۔

پڑھیے: پاکستان سگ گزیدگی سے کس طرح پاک ہوسکتا ہے؟

بارہا یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ کموڈٹیز کی قیمتوں کے تعین یا قومی ادارے کی فروخت کے فیصلوں کے لیے عدالت بہتر جگہ نہیں ہے، مگر گورننس کی ناکامی ایسے تمام مسائل کو عدالت تک پہنچا دیتی ہے۔

سندھ کی ہی مثال لیجیے جہاں آوارہ کتوں کے مسئلے میں ایک کے بعد دوسری عدالت کو کھینچا جا رہا ہے۔ کورونا ویکسین کی سست فراہمی تو چلو اس وجہ سے سمجھ آتی ہے کہ آج دنیا بھر میں اس کی مانگ ہے لیکن یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ایک صدی پہلے دریافت شدہ سگ گزیدگی (کتے کے کاٹنے) کے بعد لگنے والی ویکسین بھی تیار نہیں کرپائی ہے۔

تو پھر آوراہ کتوں کی آبادی پر کنٹرول اور ریبیز ویکسین کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ عام طور پر یہ خدمات مقامی حکومتیں انجام دیتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم عموماً مقامی حکومت کے انتخابات کرواتے ہی نہیں ہیں۔

آپ شاید پوچھیں گے کہ ایسا کیوں ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے قانون ساز گٹر نالوں اور سڑکوں کی مرمت سے ابھی تک آگے بڑھے ہی نہیں ہیں، جو حقیقی دنیا میں نہیں بلکہ کاغذوں پر ہی کی جاتی ہے۔ اگر یہ کام بلدیاتی ادارے کرنے لگے تو یہ لوگ اگلے انتخابات میں اپنے حلقوں کے عوام سے کون سے وعدے کریں گے؟

عدالتیں وقتاً فوقتاً میدان میں اترتی ہیں اور مقامی حکومت کے انتخابات کروانے کے احکامات جاری کرتی ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی آگے بڑھتی ہیں اور صرف اس وقت ہی عدالتی حکم کو مانتی ہیں جب سارے بہانے ختم ہوجاتے ہیں، اور ایسا بھی تب ہوتا ہے جب انہیں اس بات کی تسلی ہوتی ہے کہ عدالت انہیں انتخابات کروانے پر تو مجبور کرسکتی ہے لیکن مقامی حکومتوں کو فنڈ اور اختیارات دینے پر مجبور نہیں کرسکتی۔

پڑھیے: سگ گزیدگی روکنا آسان لیکن اختتام خوفناک - یہ حکومتی ریڈار پر کیوں نہیں؟

ان مسائل کی چکی میں پھر شہری ہی پستے ہیں اور آوارہ کتوں کی صورتحال اکثر اوقات اس قدر بے قابو ہوجاتی ہے کہ آئے روز کتے کے حملوں سے مرنے والوں لوگوں اور بالخصوص بچوں سے متعلق خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جو افراد ان خوفناک حملوں میں زندہ بچ جاتے ہیں انہیں 'خوش قسمت' بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث انہیں دردناک موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حکومت کی ہر سطح پر مجرمانہ غفلت کے باعث ہونے والے ان ہیبت ناک واقعات کو میڈیا رپورٹ کرتا ہے۔ پھر عدالتیں عام طور پر کسی شہری کی دائر کردہ پٹیشن پر واقعات کا نوٹس لے کر عوامی نمائندگان اور ضلعی انتظامیہ کو طلب کرتی ہیں، ان کی سرزنش کی جاتی ہے، پھر دوسری طرف سے دائرہ کار اور اختیارات کی کمی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، معاملہ گول گول پھرتا رہتا ہے، جج صاحبان عدالتی حکم نامہ نہ ماننے پر سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہیں جبکہ قانون ساز انہیں ہوا میں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

گورکھ دھندے کا یہ چکر یہیں تک محدود نہیں رہتا۔ چند حکومتیں اپنی تمام صلاحیتوں اور فکری قوت بروئے کار لاتے ہوئے صورتحال کی شدت کم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جس پر سول سوسائٹی میدان میں اتر جاتی ہے۔

سول سوسائٹی کے افراد بھی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں اور آوارہ کتوں کے ساتھ پُرتشدد سلوک کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کے لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت پہلے کتوں کو پکڑے، پھر انہیں جانوروں کے ہسپتالوں تک پہنچائے، جہاں انہیں ویکسین لگانے اور ان کی نس بندی کرنے کے بعد واپس ان کے اصل ٹھکانوں پر چھوڑ آئے۔ عدالتیں ان مطالبوں کی حمایت کرتی ہیں۔ حکومتیں، جن کے پاس پاکستان کے دیہی اور مضافاتی شہری علاقوں میں رہنے والے لاکھوں، کروڑوں افراد کے لیے قائم بنیادی صحت مراکز کو ایسپرن گولی کی فراہمی کے لیے بھی رقم موجود نہیں ہے، وہ پھر عدالتی حکم کو ماننے کا دکھاوا ہی کرتی ہے۔

پڑھیے: اگر کتا حملہ کردے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

حال ہی میں صوبائی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا کہ ویکسین کی فراہمی کے لیے ٹینڈرز طلب کرلیے گئے ہیں اور بولی کا عمل پورا ہونے کے بعد ویکسین فراہم کردی جائے گی۔ آوارہ کتوں کو ایک سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے 60 گاڑیاں بھی خریدی جا رہی ہیں۔ یہ بڑی باعثِ حیرت بات ہے کہ کتے کے کاٹنے سے زندگی محفوظ بنانے والی ویکسین کے معاملے میں single-source route of procurement یا ایک سے زائد وینڈرز یا فروشوں سے خدمات کے حصول) کے طریقے کو اختیار کیوں نہیں کیا گیا یا پھر یہ پیش کش سڑکوں کی اشد ضروری تعمیرات کے لیے صرف ایف ڈبلیو او تک ہی محدود ہے؟

اس بات کا غالب امکان ہے کہ 60 گاڑیوں کی خریداری سے متعلق سمری ویکسین کی خریداری سے بہت پہلے ہی منظور کرلی جائے گی، بھئی ظاہر ہے کتوں کی سواری کا معاملہ جو ٹھہرا۔ یوں لگتا ہے کہ عظیم صوفی شاعر بلھے شاہ ایک پُرکشش نعرے کے طور پر ہماری حکومتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے لیے یہ کہہ گئے ہیں: اٹھ بلھیا چل یار منا لے، نئی تے بازی لے گئے کتے۔


یہ مضمون 29 مئی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں