بل کوسبی کی رہائی کے بعد ’می ٹو مہم‘ کے غیر مؤثر ہونے کا خدشہ

03 جولائ 2021
بل کوسبی کو 30 جون کو جیل سے رہا کیا گیا تھا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
بل کوسبی کو 30 جون کو جیل سے رہا کیا گیا تھا—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

ہولی وڈ اداکار 83 سالہ بل کوسبی کی ’ریپ‘ الزام میں قید اور پھر رہائی کے بعد خواتین کو جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے لانے کے لیے طاقت بخشنے والی ’می ٹو مہم‘ کو چلانے والی تنظیموں نے اس کے کمزور ہونے کے خدشات ظاہر کردیے۔

بل کوسبی کو لاس اینجلس کی سپریم کورٹ نے 30 جون کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں سزا سنائے جانے والے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔

بل کوسبی دسمبر 2018 سے جیل میں تھے، انہیں ریاست میری لینڈ کی مونٹگمری کاؤنٹی کی عدالت نے کینیڈا کی ایک باسکٹ بال کھلاڑی آندریا کونسٹائڈ کو 2004 میں ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے کے جرم میں جیل بھیجا تھا۔

بل کوسبی کو عدالت نے 3 سے 10 سال تک جیل بھیجا تھا، جس کا مطلب تھا کہ انہیں ہر حال میں تین سال قید کی سزا ہونی تھی، جس کے بعد وہ ضمانت کے لیے رجوع کر سکتے تھے۔

تاہم انہوں نے پہلے ہی عدالت میں اپنی سزا کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر کر رکھی تھی، جس کی سماعت میں عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے انہیں جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ریپ الزام میں قید 'بل کوسبی' جیل سے رہا

بل کوسبی ڈھائی سال جیل میں رہے لیکن انہیں 3 سال کی لازمی قید مکمل کرنے میں ابھی 6 ماہ باقی تھے۔

عدالت کی جانب سے بل کوسبی کو رہا کرنے کے بعد ’می ٹو مہم‘ کو چلانے والی تنظیم ’ٹائمز اپ‘ نے مہم کے کمزور ہونے کے خدشات ظاہر کردیے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ٹائمز اپ تنظیم نے بل کوسبی کی رہائی کے بعد اپنے جاری بیان میں ’می ٹو مہم‘ کے کمزور ہونے کے خدشات کا اظہار کیا۔

تنظیم کے مطابق ’می ٹو مہم‘ کی وجہ سے خواتین بل کوسبی کے خلاف سامنے آئی تھیں اور اسی مہم کی وجہ سے ہی طاقتور مرد کو سزا ملی تھی مگر اب ان کی سزا کو غلط قرار دیے جانے سے مہم کمزور ہو سکتی ہے۔

ٹائمز اپ کو 2018 میں اکتوبر کے بعد بنایا گیا تھا اور یہ تنظیم ’می ٹو مہم‘ کے تحت جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے لانے والی خواتین کو قانونی و مالی مدد فراہم کرتی ہے۔

اب تک مذکورہ تنظیم امریکا سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی 50 ہزار خواتین و مرد متاثرین کی مدد کر چکی ہے۔

بل کوسبی کی رہائی کے بعد ٹائمز اپ کے علاوہ خواتین کے حقوق اور خصوصی طور پر جنسی ہراسانی کے معاملات پر کام کرنے والی دیگر فلاحی تنظیموں نے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں