لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

خارجہ پالیسی ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور اسے درست طور پر کسی بھی ملک کی پہلی دفاعی لائن کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پالیسی سازی اور اس کی وضاحت کے لیے بہت زیادہ سوچ بچار اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک خارجہ پالیسی کو عوامی سطح پر جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے وہ اسے کم یا زیادہ مؤثر بناسکتا ہے ساتھ ہی وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

سفارت کاری میں اس بات کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے کہ کب عوامی سطح پر کوئی بات کہی جائے اور کب خاموش رہا جائے۔ الفاظ کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں، کبھی آپ اس کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔

خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات پاکستان کے سفارتی تعلقات، دنیا کے سامنے ہماری شبیہہ اور بین الاقوامی رائے پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات میں یہ فرق نہیں کیا جاتا کہ یہ بیانات صرف ملکی عوام کے لیے ہیں یا پھر بین الاقوامی برادری کے لیے، یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی پر کوئی بھی بیان دینے سے قبل الفاظ کو تولنا بہت ضروری ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدے دار خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات اور انٹرویوز دیتے ہوئے ان باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ نتیجتاً غیر ضروری الجھاؤ پیدا ہوتا ہے جو ملک کے لیے سودمند نہیں ہوتا۔

اس کو یوں دیکھیے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کئی وزرا جن کی ذمہ داریاں خارجہ معاملات سے متعلق نہیں ہیں وہ بھی بین الاقوامی معاملات پر عوامی سطح پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اکثر ان کے بیانات اپنے دیگر ساتھیوں سے مختلف ہوتے ہیں۔

حال ہی میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کو ہی دیکھ لیجیے۔ اس اجلاس کے حاصلات پر وزیر خارجہ کے علاوہ کم از کم 3 مزید وزرا نے بھی تبصرہ کیا۔ ایک وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان کے ’گرے لسٹ‘ میں برقرار رہنے کی وجہ اس کے پاس جوہری صلاحیت کا ہونا ہے۔ یہ واحد معاملہ نہیں ہے کہ جس پر مختلف بیانات سامنے آئے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسی ہو؟

اس وقت افغانستان کے حالات خطرناک ہیں اور افغانستان کے مستقبل کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ ایسی صورتحال میں بھی کچھ وزرا اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں جو خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔

سرکاری اعلانات میں مستقل مزاجی کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ خارجہ پالیسی کی وضاحت ہوجائے اور خارجہ معاملات کے حوالے سے پاکستان کے مفادات اور مقاصد پر کوئی ابہام نہ رہے۔ تاہم اس عزم کو اس وقت ٹھیس پہنچتی ہے جب دیگر قلمدان رکھنے والے وزرا بھی اپنی محدود معلومات کے ساتھ صرف مقبولیت کے حصول کے لیے خارجہ معاملات پر بیانات دینا شروع کردیتے ہیں۔

صرف دیگر وزرا ہی نہیں بلکہ جو لوگ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات دینے کے ذمہ دار ہیں انہیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کیا خارجہ معاملات پر بہت زیادہ گفتگو کرنا یعنی روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کرنا یا ٹی وی پر آنا مؤثر ثابت ہوگا اور کیا ایسا کرنا احتیاط کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بیانات دینے سے ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں جن کی وجہ سے ایسی شرمندگی کا سامنا ہوتا ہے جس سے بچا رہنا ممکن ہوسکتا ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزرا کے بیانات کی کتنی مرتبہ وضاحت کی جاتی ہے یا ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تجربہ کار سیاستدان اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے اور ضرورت سے زیادہ میڈیا کوریج میں ایک توازن برقرار رکھتے ہیں۔ یہ اصول خارجہ معاملات کے ذمہ داروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کچھ وضاحتیں ترجمانوں کے لیے چھوڑ دینے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔

حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی پر آنے والے بیانات کا ایک پہلو عوامی سیاست اور عوامی مقبولیت بھی ہوتی ہے۔ یہ رجحان ان دیگر ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے جہاں عوامی سیاست کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام کو خارجہ پالیسی سمجھانا اور خارجہ پالیسی کے مقاصد پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے اشتعال انگیز بیانات دیے جائیں جن کا مقصد صرف عوامی مقبولیت میں اضافہ ہو اور دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ٹھیس پہنچے۔

لیکن بات پھر وہی ہے کہ عوامی مقبولیت کے لیے کوئی کام کرنا ہمارے حکمرانوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ تاہم جیسا کہ باقی جگہوں پر ہوتا ہے کہ یہ رجحان ایسی پیچیدگیوں اور مشکلات کا باعث بنتا ہے جن سے بچنا ممکن ہوتا ہے۔

جب آپ محض عوامی مقبولیت کی خاطر خارجہ پالیسی سے متعلق بیان دیتے ہیں تو اس سے یہ خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے ملک غیر سنجیدہ اور غیر متوقع حیثیت میں پیش ہو۔ سابقہ دوست ممالک پر الزام تراشی کرنا شاید ہی کسی ملک کو اس کے مقاصد کے حصول میں مدد دے سکے۔ جو کچھ بھی مقامی سطح پر کہا جاتا ہے اس کے اثرات ملک سے باہر بھی جاتے ہیں اور پھر اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔

مزید پڑھیے: بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ اور پاک سعودیہ تعلقات

کچھ وزرا میں یہ عادت بھی ہے کہ جب کوئی دوست ملک یا کوئی ادارہ پاکستان کے مؤقف کی حمایت نہیں کرتا تو وہ اس کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بند کمروں میں ہونے والی بات چیت جسے باہر نہیں آنا چاہیے اسے بھی عوامی سطح پر بیان کیا جارہا ہوتا ہے۔ مثلاً او آئی سی پر ہونے والی تنقید سب ہی کو یاد ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ کسی ملک یا ادارے کے حوالے سے اپنے خدشات کو رازداری سے دوسرے تک پہنچانا اور اس پر دباؤ ڈالنے سے دوسرے ملک یا ادارے کو اپنا راستہ تبدیل کرنے پر قائل کیا جاسکتا ہے؟ اور یہ کہ کہیں عوامی سطح پر تنقید ان کو اپنے مؤقف پر مزید مضبوط تو نہیں کردے گی؟

یہی صورتحال ایک ایسے ملک کے ساتھ بھی پیش آچکی ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت اہم تھے۔ نتیجتاً پاکستان کو جو دھچکا لگا اس کو درست کرنے میں کئی سال لگے۔

اس حوالے سے تازہ معاملہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پیش آیا۔ سینئر وزرا کی جانب سے آنے والے بیانات میں کہا گیا کہ ایف اے ٹی ایف کے مقاصد سیاسی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس خیال کے پیچھے مضبوط بنیاد ہو لیکن عوامی سطح پر اس کا اظہار مستقبل میں اس ادارے کی جانب سے کسی مثبت خبر کے حصول کا طریقہ نہیں ہے۔

جیسا کہ گمان تھا کہ اس صورتحال میں ایک یورپی اہلکار نے (اپنی شناخت چھپاتے ہوئے) اسلام آباد کو ایسے بیانات کے حوالے سے خبردار کیا جو کہ ’نہ صرف متضاد ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات کے لیے بھی نقصاندہ ہیں‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیانات اور رپورٹس کے حوالے سے موجود اختلافات کا اظہار نہیں کیا جائے بلکہ اس کا اظہار بامقصد طریقے سے اور نپے تلے انداز میں ہونا چاہیے۔

خارجہ پالیسی پر دیے جانے والے بیانات کا انداز بھی بیرون ملک ایک اثر رکھتا ہے۔ کسی مسئلے پر شور شرابا کرنا اس کا حل نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے اہمیت رکھنے والے کسی مسئلے پر ہونے والے فیصلے یا پھر بین الاقوامی برادری کی عدم توجہ پر شور شرابا کرنے سے دوسروں کا فیصلہ تبدیل نہیں ہوگا۔ تاہم یہ آپ کے مخالفین پر آپ کی مایوسی اور کمزوری ضرور ظاہر کردے گا۔

مزید پڑھیے: افغانستان سے امریکی انخلا اور خانہ جنگی کا ممکنہ خطرہ

ہر وقت شکایت کا انداز اختیار کیے رکھنے سے ہم نہ صرف اپنی ہی نظروں میں اپنا مقام کھودیں گے بلکہ دنیا کو بھی خود سے دُور کردیں گے۔ شور شرابا صرف اور صرف ہماری کمزوریوں کو ظاہر کرے گا اور پاکستان کی حیثیت کو بہتر کرنے کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ مزید خطرناک بیانات وہ ہوتے ہیں جن میں ہم خود کو مظلوم بنا کر اور ’بین الاقوامی سازشوں‘ یا دوسروں کی پالیسیوں کو ہدف بناکر پیش کرتے ہیں۔ یہاں بھی وہی بات صادق آتی ہے کہ اگرچہ یہ جذبات درست بھی ہوں تب بھی ان کا عوامی سطح پر اظہار کرنے کے بجائے نجی محفلوں ہونا چاہیے۔ خود کو مظلوم ثابت کرنے سے خود اعتمادی کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔

اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہم میں ماضی کو کریدنے اور اس بات کا بار بار اظہار کرنے کی عادت پڑ چکی ہے کہ کس طرح کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ہم سے بُرا رویہ رکھا گیا۔ اندرونی سطح پر دوطرفہ تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے تو ایسا کیا جاسکتا ہے لیکن اس موضوع کو عوامی تقریروں کا حصہ بنانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کی اہلیت نہ ہونے اور مستقبل کے حوالے سے بامقصد سوچ کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔ عوامی سطح پر مظلومیت کے اظہار پر بننے والا بیانیہ نہ ہی خارجہ تعلقات بنانے میں مددگار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی بحالی کے لیے عوام کو متحرک کرتا ہے۔

مربوط، پُراعتماد اور باوقار طریقے سے خارجہ پالیسی کا عوامی سطح پر اظہار اسٹیٹ کرافٹ کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لیکن اسے عوامی مقبولیت یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں دیگر ممالک اور اداروں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات داؤ پر لگ جاتے ہیں۔


یہ مضمون 05 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

اختر حسین Jul 06, 2021 10:58am
پچھلے 70 سال میں جب محترمہ ملیحہ لودھی صاحبہ اور ان جیسے لاتعداد لوگوں نے حقائق سے نظریں چراتے ہوئے مغربی اقوام کی چیرہ دستیوں پر پردہ ڈالا اس سے کیا حاصل ہوا جو اب ہوگا۔ محترمہ برائے مہربانی ان چیزوں کی پردہ داری سے باز آئیے اس قسم کی باتوں سے افراد کو ذاتی فائدے تو حاصل ہوتے ہیں مثلاً امریکی ویزوں کا آزادانہ حصول مالی منفعت اور بحیثیت دانشور توجہ کا حصول وغیرہ اب دور تبدیل ہوچکا ہے لہذہ جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بہت اعلی عمران خان
Abdul Ghafoor Tayabani Jul 07, 2021 11:37am
My view is that it is no an issue that you need to write a detailed column, you should resign when Nawaz placed you back seat in UN session, it was shame as our UN representative sitting without any position and a grandchild of PM sitting your place. Did you aware write column on it? and give the nation you valued opinion.