میں 2003ء سے 2009ء تک مانسہرہ کے سیاحتی مقام چھتر پلین میں واقع 'چھتر موٹیل اینڈ ریسٹورنٹ' نامی ایک ہوٹل میں ایڈمن افسر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔

چونکہ یہ سیاحتی مقام گلگت جانے والی شاہراہ ریشم پر واقع ہے اس لیے ملکی و غیر ملکی سیاحوں، کوہ پیماؤں، سائیکلسٹوں، بائیکروں، پیدل سفر کرنے والوں، پیرا شوٹروں اور پیرا گائیڈرز کا یہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میری خوش نصیبی ہی کہیے کہ مجھے اپنی خدمات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ جان جوکھوں کا کام کرنے والی بے خوف و خطر شخصیات سے ملاقات کے نادر مواقع بھی ملتے رہے۔

بعض اوقات تو ہمارے ہاں ایسے بھی مہمان آئے جو کسی نہ کسی شعبے میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے۔ شومئی قسمت کہ ان دنوں ڈیجیٹل کیمروں یا اسمارٹ فونز عام نہیں تھے لہٰذا چند نامور اور اکثر گمنامی میں رہنے والے ہیروز کے آٹوگراف لے کر ہم نے متاع جاں کی طرح اپنے پاس محفوظ کرلیے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ لوگوں کے ماضی میں قید کارناموں سے متعلق غیر معمولی داستانیں بھی میری نوٹ بُک کی زینت بنتی رہیں۔ اُن اَن سنی داستانوں میں سے ایک داستان ولاری روزوف کی بھی ہے، جسے آج آپ تک پہنچانے کے لیے یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔

ولاری روزوف ایک روسی بیس جمپر (Base Jumper) اور اسکائی ڈائیور (Skydiver) تھے۔ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں سے کودنے کے لیے پہچانے جاتے تھے۔ وہ اپنے عروج کے زمانے میں دنیا میں بلند ترین بیس جمپنگ کا ریکارڈ اپنے نام کرچکے اور اس کے ساتھ ساتھ اسکائی ڈائیونگ میں 3 بار عالمی چیمپئن بھی بنے۔

روزوف سے میری ملاقات 2004ء کے جولائی میں ہوئی تھی۔ ان دنوں وہ شمالی علاقہ جات کی وادی ننگما میں واقع امین بریک نامی مقام پر اپنی پہلی ونگ سوٹ بیس جمپ مکمل کرنے پاکستان آئے ہوئے تھے۔

روزوف خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط جسامت، دراز قد، نہایت ذہین، خوش مزاج اور پُرکشش شخصیت کے حامل ایک درویش صفت انسان تھے۔

اس روز ہوٹل میں معمول سے زیادہ چہل پہل تھی اور میں تمام مسافروں کی بِلنگ سے فارغ ہوکر برآمدے میں کھڑا دیس بدیس سے اپنے ساتھ زندگی کے منفرد تجربات کا خزینہ لانے والے بندگانِ خدا کی حرکات وسکنات کو آنکھ بھر کے دیکھ رہا تھا۔

میں اس دن اس سوچ میں ڈوبا تھا کہ آدم بھی خدا کی بجا طور پر ایک خوبصورت تخلیق ہے۔ نئے چہرے اکثر نئی سوچ کے لیے چراغ راہ کی مانند ہوتے ہیں جو انسان کو خود اپنے، کائنات اور خالق کے بارے میں غور و فکر کے مواقع عنایت کرتے ہیں جسے ہم ایسے لوگ شعور کی محرومی کے باعث اکثر گنوا دیتے ہیں۔

انہی سوچوں میں غلطان تھا کہ اچانک میری نظر انسانوں کی بھیڑ میں موجود روزوف کے چہرے پر پڑی جو اپنے ہمراہی کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ جھیل جیسی پُرسکون شخصیت کے مالک تھے، جس پر کبھی کبھار مسکراہٹ کی اک لہر اپنی پوری جاذبیت کے ساتھ ارتعاش پیدا کردیتی اور ان کا چہرہ کِھل اٹھتا، انہیں دیکھ کر میں غیر ارادی طور پر ان کی طرف بڑھنے لگا۔

میں نے روزوف کے پاس پہنچتے ہی کہا،

'آداب، آپ کو کھانا کیسا لگا؟'

یکلخت میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے انہوں نے تشکرانہ انداز میں مسکرا کر مگر ذرا توقف سے جواب دیا،

'ہم کھانے سے خوب لطف اندوز ہوئے. شکریہ۔'

میں نے بات کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا،

'آپ کہاں سے آئے ہیں؟'

جس کے جواب میں انہوں نے قدرے اٹھتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اور کہا،

'میرا نام ولاری روزوف ہے اور میں روس سے ہوں۔'

جواباً ہاتھ ملاتے وقت میں نے بھی رسماً اپنا نام بتایا اور ایک خالی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا،

'اگر آپ بُرا نہ مانیں تو کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟'

اس نے حقیقتاً کھلے دل سے بیٹھنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا،

'ضرور، مجھے خوشی ہوگی۔'

ولاری روزوف—انسٹاگرام
ولاری روزوف—انسٹاگرام

گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ ایک اسکائی ڈائیور اور بیس جمپر ہیں اور اسکائی ڈائیونگ میں 3 بار عالمی چیمپئن بن چکے ہیں اور یہ شوق پورا کرنے کے لیے انہیں فضا کی بلندیوں اور اونچے اونچے پہاڑوں سے کودنا پڑتا ہے۔

مجھے یہ سن کر بے حد حیرانی ہوئی جس کا اظہار میں نے کچھ اس طرح کیا،

'سن کر بہت اچھا لگا مگر کوئی شخص کس طرح ہزاروں فٹ کی بلندیوں سے کودنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ رسک لینے کے بجائے اس میں تو غیر معمولی صلاحیتیں مطلوب ہوتی ہیں اور آپ چونکہ ایک ہی وقت میں کوہ پیمائی اور اسکائی ڈائیونگ جیسے 2 متضاد جوکھوں بھرے شوق رکھتے ہیں اس لیے یہ کام تو آپ کے لیے اور بھی مشکل ہوتا ہوگا؟'

اس نے قہقہ لگاتے ہوئے ازراہِ مذاق کہا، 'اسی لیے تو میں 3 بار عالمی اسکائی ڈائیونگ چیمپئن بن چکا ہوں'۔

پھر میری اصلاح کی غرض سے انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، 'اور آپ کی معلومات میں اضافہ کرتا چلوں کہ یہ درحقیقت اسکائی ڈائیونگ نہیں بلکہ بیس جمپنگ ہے۔ اسکائی ڈائیونگ میں جہاز سے کودنا پڑتا ہے جبکہ بیس جمپنگ کے لیے آپ کو پہاڑ سے چھلانگ لگانی پڑتی ہے'۔

میں نے ستائشی انداز میں کہا، 'بلاشبہ آپ چیمپئن ہیں اور معلومات میں قیمتی اضافے کے لیے شکریہ مگر میں آپ کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہوں، اپنے تجربات ہم سے بانٹیے'۔

یہ سوال سننا تھا کہ روزوف کے اندر کا درویش جو شاید اسی سوال کے انتظار میں تھا فوراً باہر نکل آیا اور اس نے بولنا شروع کیا، 'کوہ پیمائی ایک تمنا ہے جسے ولاری کو پورا کرنا ہے اور ڈائیونگ ایک جذبہ ہے جس کی تکمیل روزوف کو کرنی ہے۔ دونوں اپنے اپنے مقاصد کے لیے پُرعزم ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'پہاڑ مجھے بلندیوں تک لے جاتے ہیں اور پھر ان کی محبت مجھے فضا میں کود جانے پر مجبور کردیتی ہے'۔

میری نوٹ بک میں محفوظ ولاری روزوف کا آٹوگراف
میری نوٹ بک میں محفوظ ولاری روزوف کا آٹوگراف

اپنی بات کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے وہ بلا توقف بولتے رہے، 'پہاڑ مجھ سے بات کرتے ہیں اور میرے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ وہ مجھ جیسے ہیں، انہیں خبر ہے کہ میں کیا کہنے جا رہا ہوں اور مجھے میرے لفظوں اور میری ہی آواز کی گونج میں جواب دیتے ہیں'۔

اس لمحے یوں لگا کہ جیسے علم کا ساگر میرے سامنے ہے اور میں آگاہی کی تشنگی کا مارا مسافر ہوں، سو میں مخل ہوئے بغیر ان کی باتیں بغور سنتا جا رہا تھا۔ انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ، 'مگر فضا مجھے قدرت کا ایک تحفہ سمجھتی ہے اور مجھے ایک بچے کی مانند اپنی گود میں سمو لیتی ہے۔ پھر محفوظ انداز میں زمین پر اتارتی ہے تاکہ میں اپنے جوکھوں بھرے شوق پورے کرتا رہوں‘۔

میں نے ایک آہ بھری اور جھیل میں تیرتے ہوئے کسی پتے کی طرح پُرسکوت لہجے میں کہا، 'آپ نہ صرف ہمت والے آدمی ہیں بلکہ ایک دانا شخص بھی ہیں‘۔

روزوف کی گفتگو میں سنجیدگی کا عنصر پہلے سے زیادہ نمایاں نظر آنے لگا تھا۔ انہوں نے کہا کہ، 'عقل، دانائی اور ہمت میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ایک شخص ہمت والا ہے تو اسے دانا بھی ہونا چاہیے۔ جو کوئی بھی شخص جرأت مندانہ قدم اٹھانا چاہتا ہے تو اسے عقل و دانائی سے اٹھانا چاہیے۔ بصورت دیگر اسے کسی جنگلی جانور سے کم تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رکھیے، اگر آپ کسی اَن ہونی کو ہونی میں بدلنے کا جذبہ رکھتے ہیں تو پھر اس مقصد کے حصول کے لیے آپ کو دانائی کا پہلو تھامے رکھنا ہوگا‘۔

جب میں نے ان سے یہ سوال پوچھا کہ آپ کے نزدیک زندگی اور محبت کا مفہوم کیا ہے؟ تو اس پر روزوف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ، 'میں فلسفی تو نہیں ہوں لیکن جہاں تک میرے مشاہدے کا تعلق ہے تو زندگی اسی کا نام ہے کہ اس کے تمام اچھے بُرے پہلوؤں سے محبت کی جائے اور محبت اسی کا نام ہے کہ آپ نہ صرف اپنے چاہنے والوں بلکہ نفرت کرنے والوں کی بھی پرواہ کریں‘۔

بلاشبہ روزوف ایک صاحبِ نظر بشر تھے جس کی زندگی کا تمام تر دار و مدار اس کی اپنی فکر پر استوار کردہ راہوں پر تھا، جسے وہ اپنی خود متعین کردہ منزلوں کے تعاقب میں اپنی ہی سوچ اور حوصلے کے مطابق طے کر رہا تھا۔

دل تو بہت چاہا کہ گفتگو کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے لیکن ہر مسافر کی طرح روزوف کو اپنی منزل کی طرف بڑھنا تھا۔ مسافروں کے چلے جانے میں ہی یقیناََ حکمتِ خداوندی پوشیدہ ہے۔

برسوں بیت گئے، ہماری میزبانی اور مہمانوں کی آمد کا سلسلہ چلتا رہا، مگر پھر ایک روز ایک بُری خبر سننے کو ملی۔ چٹانوں جیسے ارادے اور نرم و گداز جذبے رکھنے والے روزوف 11 نومبر 2017ء کو نیپال کے اما دلام پہاڑ سے 6 ہزار 812 میٹر (22 ہزار 349 فٹ) کی اونچائی سے کودتے ہوئے 52 سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ ان کے گروپ ممبران کے مطابق روزوف پہاڑ کے پہلو سے ٹکرا گئے تھے۔ جن پہاڑوں کو وہ اپنے جیسا مانتا تھا بالآخر وہ انہی سے جا ملے تھے۔

جن پہاڑوں کو وہ اپنے جیسا مانتا تھا بالآخر وہ انہی سے جا ملے تھے—انسٹاگرام
جن پہاڑوں کو وہ اپنے جیسا مانتا تھا بالآخر وہ انہی سے جا ملے تھے—انسٹاگرام

روزوف کی قابلِ ذکر چھلانگیں

  • 22 جولائی 2004: پاکستان میں امین بریک سے پہلی ونگ سوٹ بیس چھلانگ لگائی
  • 25 فروری 2008: سیررو ٹورے سے پہلی بیس چھلانگ لگائی
  • 9 دسمبر 2010: انٹارکٹیکا میں 2 ہزار 931 میٹر (9 ہزار 616 فٹ) بلند الویتنا چوٹی پر چڑھنے اور وہاں سے بیس جمپ کرنے والے پہلے شخص بنے۔
  • 25 مئی 2012: ونگ سوٹ پہن کر 6 ہزار 420 میٹر (21 ہزار 60 فٹ) بلند شیولنگ کی چوٹی سے پہلی بیس چھلانگ لگائی۔
  • 5 مئی 2013: 7 ہزار 220 میٹر (23 ہزار 690 فٹ) بلند چنگتسے (ماؤنٹ ایورسٹ ماسف کی شمالی چوٹی) سے چھلانگ لگائی۔ وہ ایک خاص طور پر تیار شدہ ونگ سوٹ پہن کر ایک ہزار میٹر سے زائد نیچائی پر موجود رونگ بوک گلیشیئر تک نیچے چلے گئے، یوں بُلند ترین بیس جمپنگ کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔
  • 5 اکتوبر 2016: 7 ہزار 700 میٹر (25 ہزار 300 فٹ) بلند چو اویو سے چھلانگ لگا کر بلند ترین ونگ سوٹ بیس جمپنگ کا اپنا ہی ریکارڈ توڑا۔

روزوف اس دنیا میں نہیں رہے لیکن وہ اپنے کارہائے نمایاں اور عظیم شخصیت کی بدولت نہ صرف اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے بلکہ ان کا نام و کام آنے والے ہر مہم جو کے لیے مشعلِ راہ کی طرح ہمیشہ تابندہ رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں