پاکستان نہیں یمن، القاعدہ کا نیا میدان

شائع August 15, 2013

۔ فائل فوٹو
۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: اس مہینے القاعدہ اپنی پچیسویں سالگرہ منائے گی- تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یمن میں حالیہ سیکورٹی دھمکیاں اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ اس تنظیم کا محور پاکستان سے تبدیل ہو رہا ہے-

امریکی صدر بارک اوباما نے خبردار کیا ہے کہ القاعدہ کی ذیلی تنظیم، القاعدہ ان دی عربین پینینسولا (اے کیو اے پی) اب بھی ایک خطرہ ہے حالانکہ تنظیم کی مرکزی قیادت کے خلاف کامیاب کاروائیاں کی گئی ہیں- یہ ذیلی تنظیم مسلح عسکریت پسندوں کا ایک گروپ ہے جو یمن کے کچھ حصوں پر عملی طور پر حاکم ہے-

انہوں نے یہ وارننگ ایسے وقت دی ہے جب پچھلے ہفتے امریکہ نے القاعدہ کے حملوں کے بارے میں ایک خفیہ پیغام کے پکڑے جانے کے بعد مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے سفارتخانے بند کر دئے تھے-

رپورٹس کے مطابق مذکورہ خفیہ معلومات القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری اور اے کیو اے پی کے سربراہ ناصر الوھیشی کے درمیان پیغامات کا تبادلہ تھی-

اسامہ بن لادن کے امریکی اسپیشل فورسز کے ہاتھوں 2011 میں پاکستان میں ہونے والے ایک آپریشن کے دوران ہلاکت کے بعد سے ظواہری القاعدہ کے سربراہ بن گئے ہیں اور باسٹھ سالہ مصری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے بارڈر ریجن میں روپوش ہیں-

پاکستان میں اسلامی گروپوں کے ایک ماہر، رحیم اللہ یوسف زئی کے نزدیک القاعدہ میں، جس کی بنیاد پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں 1988 میں رکھی گئی تھی، اب بھی روایتی مرکزی قیادت کی علامتی اہمیت ہے تاہم اس کے کاروائیوں کا محور تبدیل ہو گیا ہے-

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طاقت اور اپنی تاثیر کے اعتبار سے ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ تبدیل ہو گیا ہے- اب یہ پاکستان یا افغانستان نہیں رہا- زیادہ تر جنگجو، زیادہ تر ذیلی تنظیمیں پاکستان یا افغانستان سے نہیں- لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ظواہری اب پلاننگ نہیں کر رہے-

ظواہری، جن پر امریکہ نے ڈھائی کروڑ ڈالر کا انعام رکھا ہوا ہے، اسامہ کی طرح ایک طلسماتی شخصیت نہیں رکھتے تاہم ایک عرصے سے انھیں القاعدہ کا دماغ تصور کیا جاتا رہا ہے-

پاکستانی مصنف اور سیکورٹی تجزیہ نگار امتیاز گل کہتے ہیں کہ القاعدہ کی آپریشنل لیڈرشپ علاقائی ذیلی تنظیموں میں پھیل چکی ہے تاہم ظواہری اب بھی ایک تنظیم کیلئے روحانی طاقت تصور کئے جاتے ہیں۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا القاعدہ کو اسامہ جیسی طلسماتی شکست کی ضرورت نہیں رہی اور ان کے خیال میں یہ ان کا نظریاتی اسلحہ اور نظریاتی ایندھن ہے جو ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے-

یمن کے دو شہروں کے ساتھ ساتھ ایک تیل کے برآمدی ٹرمینل پر کنٹرول کے ایک جرات مندانہ پلاٹ کی حالیہ انکشافات، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اے کیو اے پی کتنی دور تک سوچ سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ الوھیشی کو الظواہری کے بعد عالمی تنظیم کی کمان میں دوسرے نمبر پر ترقی دے دی گئی ہے-

واشنگٹن میں فاؤنڈیشن فور ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے سینئر فیلو، دوید گرٹنسٹین کے مطابق وھیشی کی ترقی القاعدہ میں مرکزی قیادت کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتی ہے-

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم القاعدہ کے مرکز کی بات کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ صرف پاکستان یا افغانستان ہی میں رہے- وھیشی اس کے جنرل مینیجر بن گئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ اب مرکزی قیادت کا حصہ ہیں-

ان کا کہنا تھا کہ ہم یمن کی طرف ایک جغرافیائی تبدیلی دیکھ رہی ہیں تاہم ان کے خیال میں اس کا مطلب یہ نہیں کہ القاعدہ اپنے محور سے ہٹ گئی ہے بلکہ ان کے خیال میں یہ بات مرکز کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کرتی ہے-

القاعدہ اس وقت قائم کی گئی تھی جب سوویت یونین نے افغانستان سے اپنی فوجیں بلوا لی تھیں اور اس کے قیام کا مقصد قبضے کے خلاف جنگ کے لئے آئے ہوئے مختلف جنگجوؤں کو ایک جگہ جمع کرنا تھا تا کہ جہاد کو ایک بڑے عالمی پیمانے تک پھیلایا جا سکے اور دنیا بھر کے اہداف کو نشانہ بنایا جاسکے۔

تاہم ان کا کہنا تھا القاعدہ کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں پہلی ذیلی تنظیموں نے حالیہ برسوں میں اپنی کاروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے اور یمن کا جغرافیائی محل وقوع اسے پاکستان یا افغانستان کے مقابلے میں ایک بہتر پوزیشن دیتا ہے تا کہ مختلف گروپ آپس میں آسانی سے پیغامات کا تبادلہ کر سکیں-

واشنگٹن القاعدہ کی مرکزی قیادت کے خلاف اپنی کامیابیوں کا بہت شور مچاتا آیا ہے- امریکہ کا اشارہ اسامہ بن لادن کی موت اور القاعدہ کے کمانڈرز کی پاکستان کے شمال مغرب اور حالیہ دنوں میں یمن میں ڈرون حملوں میں ہلاکت کی طرف رہا ہے-

تاہم، کینیڈین انٹیلی جنس کی طرف سے ایک حالیہ رپورٹ، ایک چوتھائی صدی کے عرصے تک اپنے خلاف کاروائیوں کے باوجود القاعدہ کے بچے رہنے صلاحیت کے بارے میں ایک زیادہ بہتر تشخیص فراہم کرتی ہے-

رپورٹ میں اس بات سے بھی خبردار کیا گیا ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت فوج کی افغانستان سے اگلے سال واپسی اور پاکستانی حکّام کی تنظیم کو ختم کرنے کے لئے بظاہر ناکامی یا نااہلی جیسی وجوہات کی بناء پر سرحد سے دونوں اطراف تنظیم کے لئے دوبارہ محفوظ پناہ گاہوں کا کام دے سکتی ہیں-

اسلام آباد میں واقع فاٹا ریسرچ سینٹر کے سیف اللہ محسود بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں-

ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان کے لوگ ایک کامن پلیٹ فارم پر آ جاتے ہیں، اگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کے لئے ایک مشترکہ لانحہ عمل پر متفق ہو جاتے ہیں تو القاعدہ کے لئے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈنا مشکل ہو گا-

تاہم انہوں نے کہا کہ خانہ جنگی شروع ہونے کی صورت میں القاعدہ اپی پناہ گاہیں ڈھونڈنے کے لئے بہتر پوزیشن میں ہو گی-

طالبان، جنہوں نے بن لادن کو امریکی حملے سے پہلے پناہ دی تھی، یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک پر حملے کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے-

کارٹون

کارٹون : 22 جون 2025
کارٹون : 21 جون 2025