وزیراعظم عمران خان بھی اسرائیل کے جاسوسی سوفٹ ویئر کے ذریعے بھارتی نشانے پر رہے، رپورٹ

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2021
رپورٹ میں واضح نہیں کہ بھارت ہیکنگ کی کوشش میں کامیاب ہوا یا نہیں—فائل/فوٹو: اے پی پی
رپورٹ میں واضح نہیں کہ بھارت ہیکنگ کی کوشش میں کامیاب ہوا یا نہیں—فائل/فوٹو: اے پی پی

بھارت ان ممالک میں شامل ہے جو اسرائیل کی کمپنی کے جاسوسی کے سوفٹ ویئر کا استعمال کررہا تھا، جس کے ذریعے دنیا بھر میں صحافیوں، حکومتی عہدیداروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے اسمارٹ فونز کی کامیاب نگرانی کی جاتی رہی ہے اور اب رپورٹ میں مختلف شخصیات کے نام بھی سامنے آگئے ہیں جس کے مطابق وزیراعظم عمران خان بھی بھارت کے نشانے پر رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق میڈیا کے 17 اداروں کی جانب سے جاری کی گئی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ عمران خان کے زیر استعمال رہنے والا موبائل نمبر بھارت کی فہرست میں تھا۔

مزید پڑھیں: صحافیوں و سرکاری عہدیداروں کی جاسوسی کیلئے اسرائیلی سافٹ ویئر کے استعمال کا انکشاف

اسرائیلی جاسوسی کمپنی پیگاسس کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ، گارجین، لی مونڈے اور دیگر اداروں کے اشتراک سے انکشافات کیے گئے تھے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بھارت میں زیر نگرانی رہنے والے نمبروں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان سمیت سیکڑوں نمبر پاکستان سے تھے۔

اخبار کی رپورٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا وزیراعظم عمران خان کے نمبر کی نگرانی کی کوشش کامیاب رہی یا نہیں۔

بھارتی تفتیشی نیوز ویب سائٹ وائر کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 300 موبائل نمبر استعمال کیے گئے اور اس فہرست میں حکومتی وزرا، حزب اختلاف کے سیاست دانوں، صحافیوں، سائنس دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے نمبر شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں 40 سے زائد صحافیوں کے نمبر اس فہرست میں شامل تھے، جو معروف اداروں ہندوستان ٹائمز، دی ہندو اور انڈین ایکسپریس سے منسلک ہیں اور ساتھ ہی وائر کے دو بانی ایڈیٹر بھی شامل ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ان انکشافات پر ردعمل میں کہا کہ اس رپورٹ پر انتہائی تشویش ہے، ‘مودی حکومت کی غیر اخلاقی پالیسیوں سے بھارت اور پورا خطہ خطرناک حد تک پولرائز ہوگیا ہے’۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘بھارتی حکومت کی اسرائیلی این ایس او پیگاسس کے ذریعے جاسوسی کرنے والی آمرانہ حکومتوں میں شامل ہونے کی نشاندہی ہوئی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘دوسرے حصے میں مودی حکومت کی جانب سے اپنے وزرا کی نگرانی کا انکشاف ہوا ہے، این ایس او فروخت کے لیے بظاہر اسرائیلی حکومت سے منظوری لیتی ہے اور رابطے واضح ہیں’۔

قبل ازیں بھارتی حکومت نے 2019 میں اپنے شہریوں کی جاسوسی کے حوالے سے رپورٹس کو مسترد کردیا تھا جبکہ وٹس ایپ نے امریکا میں اسرائیلی کمپنی این ایس او کے خلاف جاسوسی کے الزامات پر مقدمہ کردیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ کمپنی سائبر جاسوسی کے لیے وٹس ایپ کا استعمال کر رہی ہے۔

اسرائیل کی کمپنی این ایس او اور اس کا جاسوسی کا نیٹ ورک پیگاسس 2016 سے خبروں میں ہے جب محقیقین نے انکشاف کیا تھا کہ کمپنی متحدہ عرب امارات میں شہریوں کی جاسوسی میں مدد کر رہی ہے۔

میڈیا کی رپورٹ کے مطابق لیک اسمارٹ فون نمبرز کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہے اور خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ 2016 سے این ایس او کے کلائنٹ کے لیے رسائی دی گئی۔

گارجین کا کہنا تھا کہ تفتیش میں این ایس او کے ہیکنگ سوفٹ ویئر کی جانب سے نشانے بنانے کو وائرس سے تعبیر کیا گیا جو اسمارٹ فونز کو پیغامات، تصاویر، ای میلز، کال ریکارڈ اور مائیکروفونز کو خفیہ طور پر فعال کرکے متاثر کرتا ہے۔

اے ایف پی، وال اسٹریٹ جرنل، سی این این، نیویارک ٹائمز، الجزیرہ، فرانس 24، ریڈیو فری یورپ، میڈیا پارٹ، ایل پائس، ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی)، لی مونڈے، بلومبرگ، دی اکنامسٹ، رائٹرز، وائس آف امریکا اور گارجین سے منسلک صحافی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

اے پی کے میڈیا ریلیشنز کے ڈائریکٹر لورین ایسٹون کا کہنا تھا کہ ہم یہ جان کر شدید کرب میں ہیں کہ اے پی کے دو صحافی بھی دیگرمیڈیا اداروں سے منسلک صحافیوں کے ساتھ پیگاسس کے جاسوسی نشانے پر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے صحافیوں کی ڈیوائسز کی سیکیورٹی کے لیے یقینی اقدامات کیے ہیں اور تفتیش بھی کر رہے ہیں۔

رائٹرز کے ترجمان ڈیو موران نے کہا کہ صحافیوں کو جہاں کہیں بھی ہوں عوام کے مفاد میں بغیر ہراسانی کے خوف یا نقصان کے رپورٹ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم رپورٹس سے آگاہ ہیں اور اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو جاسوسی سوفٹ ویئر کے ‘ہول سیل کی عدم ریگیولیشن’ سے تعبیر کیا۔

عالمی ادارے نے اپنے بیان میں کہا کہ جب یہ کمپنی (این ایس او) اور صنعت مجموعی طور پر انسانی حقوق کا احترام نہیں کرسکتی اس کے برآمد، فروخت، منتقلی اور جاسوسی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال فوری طور پر غیر فعال ہونا چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق پیگاسس سوفٹ ویئر ماضی میں الجزیرہ کے رپورٹرز اور مراکش کے صحافیوں کے فون ہیک کرنے کے لیے استعمال ہوا تھا جس کو سٹیزن لیب نے رپورٹ کیا تھا جو یونیورسٹی آف ٹورنٹو اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایک تحقیقی سینٹر ہے۔

اسرائیلی فرم نے کس طرح فون ہیک کیے؟

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق اسرائیلی فرم نے (Pegasus) نامی سافٹ ویئرز کے ذریعے ہیکنگ کا کام سر انجام دیا۔

مذکورہ سافٹ ویئر موبائل فونز کو ہیک کرنے کے لیے وائرس کی طرح کام کرتا ہے اور اسرائیلی فرم نے اس پر اتنی تحقیق سے کام کیا کہ اب یہ سافٹ ویئر خود بخود موبائل فون میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر مذکورہ سافٹ ویئر وائرس کی شکل میں بھیجا جاتا تھا مگر اب یہ سافٹ ویئر خود ہی موبائل کے آپریٹنگ سسٹم کی خرابیوں کو غنیمت جان کر موبائل میں داخل ہوجاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق (Pegasus) سافٹ ویئر کسی بھی آئی او ایس اور اینڈرائڈ فون کے آپریٹنگ سسٹم میں تھوڑی سی بھی خرابی ہونے کی وجہ سے بھی موبائل میں داخل ہو سکتا ہے اور صارف یا آپریٹنگ سسٹم چلانے والی کمپنی کو کسی چیز کا احساس دلائے بغیر موبائل کے ہرطرح کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

موبائل میں داخل ہونے کے بعد مذکورہ سافٹ ویئر تصاویر، ویڈیوز، فون نمبرز، ای میل اور اسپیکر سمیت ہر طرح کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے اسی کی کاپی ادارے کو بھیج دیتاہے۔

تبصرے (0) بند ہیں