ترکی افغان امن عمل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، رجب اردوان

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2021
ترک صدر نے شمالی قبرص میں نماز عید کے بعد میڈیا سے بات چیت کی—فوٹو: اناطولو
ترک صدر نے شمالی قبرص میں نماز عید کے بعد میڈیا سے بات چیت کی—فوٹو: اناطولو

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ افغانستان کے اہم ایئرپورٹ کا انتظام حاصل کرنے پر غور کر رہے ہیں اور ترکی افغان امن عمل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

ترک خبر ایجنسی انادولو کی رپورٹ کے مطابق ترک ریاست شمالی قبرض (ٹی آر این سی) میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘طالبان کو ترکی کے ساتھ زیادہ خوش دلی سے اسی طرح مذاکرات کرنے چاہیئں جس طرح امریکا کے ساتھ کیے تھے’۔

مزید پڑھیں:ترک صدر کا کابل ایئرپورٹ مشن کی حمایت کیلئے امریکی امداد کی فراہمی کا مطالبہ

اردوان نے قبرص پیس آپریشن کے 47 برس مکمل ہونے پر ٹی آر این سی پر موجود تھے۔

افغان امن عمل میں مذاکرات کے حوالے سے ترک صدر نے کہا کہ میرے خیال میں ہم اس عمل کا بہتر استعمال کریں گے، اس کے دیگر متبادل بھی ہیں اور ہم اس وقت ان متبادل پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کچھ شرائط پوری کی گئیں تو ترکی کابل ایئرپورٹ کا انتظام حاصل کرنے پر غور کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک نیا دور ہے، تین مرکزی حکام یہاں نظر آرہے ہیں اور وہ نیٹو، امریکا اور ترکی ہے۔

اردوان نے امریکی انخلا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن چاہتا تھا کہ کابل ایئرپورٹ کا انتظام ترکی کے ہاتھ میں ہو جس طرح کئی برسوں سے کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں لیکن ترکی کے کچھ شرائط ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے نمبر پر سفارتی نکتہ نظر سے امریکا ہماری طرف ہوگا، دوسرا امریکا لاجسٹک کے حوالے سے امداد ہمیں دے گا اور اس حوالے سے جو ذرائع ہوں گے وہ ترکی کو فراہم کرے گا۔

ترک صدر نے کہا کہ اس عمل کے دوران ترکی کو مالی اور انتظامی تعاون کی ضرورت ہوگی۔

قبل ازیں ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’شرائط‘ کو پورا کریں جس میں مالی، لاجسٹک اور سفارتی مدد شامل ہے تاکہ ترکی افغانستان سے دیگر غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد کابل ائیرپورٹ کو چلا سکے اور اس کی حفاظت کر سکے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا 90 فیصد سے زائد مکمل، پینٹاگون

رجب طیب اردوان نے اعتراف کیا تھا کہ طالبان کو تحفظات ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ترکی اس مشن کو اس وقت تک انجام دے گا جب تک کہ نیٹو کا شراکت دار امریکا، ترکی کی تین مخصوص ضروریات کو پورا کرے۔

ترکی کو اُمید ہے کہ ایئرپورٹ کے مشن سے امریکی تعلقات میں بہتری آئے گی جو متعدد محاذوں پر کشیدہ ہیں جس میں ترکی کے روسی ایس-400 میزائل ڈیفنس کی خریداری شامل ہے۔

طالبان نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکمرانی کی اور غیر ملکی افواج کو بے دخل کرنے اور کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ پلٹنے اور اسلامی حکمرانی کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے 20 سال سے جنگ لڑ رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں