امریکی فوجی انخلا کے بعد تو افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضے کے اندازے لگائے جا رہے تھے لیکن امریکی ڈیڈلائن مکمل ہونے سے پہلے ہی کابل انتظامیہ سرنڈر کرگئی اور طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا۔

افغان طالبان کی مئی میں شروع ہونے والی پیش قدمی اس قدر تیز رفتار تھی کہ امریکی انٹیلی جنس کو اپنی رپورٹس پر نظرثانی کرنا پڑی۔ پہلے کہا گیا کہ طالبان کو قبضے کے لیے ایک سال درکار ہوگا لیکن یکے بعد دیگرے بڑے شہروں پر بغیر مزاحمت قبضہ ہوتا چلا گیا تو امریکی انٹیلی جنس نے رپورٹ بدلی اور کہا کہ 30 سے 90 دن میں طالبان کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں اور اس نئی رپورٹ کے صرف 5 دن بعد طالبان جنگجو افغان صدارتی محل میں بیٹھے تھے۔

افغان طالبان کی تیز ترین پیش قدمی، افغان فورسز کا بغیر لڑائی پسپا ہونا، کابل ایئرپورٹ پر امریکی سفارتی عملے اور شہریوں کو نکالنے کے آپریشن کے دوران ویتنام میں امریکی فوجی شکست کے بعد سائیگون ایئرپورٹ جیسے مناظر نے دنیا کو ششدر کردیا۔ یہ سب کچھ اتنا تیز ترین اور غیر متوقع تھا کہ عالمی لیڈران کو ردِعمل تیار کرنے میں وقت لگا۔

کابل ایئرپورٹ اور سائیگون ایئرپورٹ پر امریکی انخلا کے بعد کے مناظر— تصویر بشکریہ ٹوئٹر
کابل ایئرپورٹ اور سائیگون ایئرپورٹ پر امریکی انخلا کے بعد کے مناظر— تصویر بشکریہ ٹوئٹر

امریکی صدر چھٹیاں گزارنے کیمپ ڈیوڈ گئے ہوئے تھے، ان کا فوری ردِعمل نہ آیا تو امریکی میڈیا ان کے پیچھے پڑگیا اور انہیں چھٹیوں کے دوران ہی وائٹ ہاؤس آکر ردِعمل دینا پڑا۔ امریکی صدر نے پرومپٹر سے دیکھ کر تقریر کی اور سوالوں کا سامنا کیے بغیر چل دیے۔

امریکی صدر سے پہلے برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے اہم اتحادی ردِعمل دے چکے تھے اور طالبان کے قبضے کو تسلیم نہ کرنے کے علاوہ پابندیاں لگانے کی دھمکیاں بھی سامنے آچکی تھیں، اس لیے توقع کی جا رہی تھی کہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی کچھ سخت اعلانات کریں گے لیکن امریکی صدر نے جو کچھ کہا اس نے دنیا کو نئی حیرت میں ڈال دیا۔

امریکی صدر کا سب سے اہم جملہ میری نظر میں یہ ہے کہ امریکی کسی ایسی جنگ میں لڑتے اور مرتے نہیں رہ سکتے جس میں خود افغان لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکی صدر نے انٹیلی جنس اندازوں میں غلطی کا بھی اعتراف کیا لیکن اپنی فورسز کی طرف سے انخلا کے منصوبے اور اس پر عمل درآمد کی تعریف کی۔ امریکی صدر نے افغان مشن مکمل ہونے کا دعویٰ کیا اور 20 سال میں کی گئی کئی غلطیوں کا بھی ذکر کیا۔

افغان طالبان نے بھی اب تک حکومت سازی کے حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا اور دوحہ میں مذاکرات جاری ہونے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ان حالات میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ

  • افغانستان میں درحقیقت کیا ہوا؟
  • امریکا اور باقی دنیا طالبان حکومت کے ساتھ کیا برتاؤ کرے گی؟
  • طالبان کا اپنا رویہ، پالیسی اور حکومتی ڈھانچہ کیا ہوگا؟

افغانستان میں کیا ہوا؟

یہ سب سے اہم سوال ہے اور اس کے جواب میں ہی دنیا کا ردِعمل بھی چھپا ہوا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے تو اشرف غنی انتظامیہ کو یہ کہہ کر مذاکرات سے باہر رکھا گیا کہ امریکا اور طالبان کے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع کروائے جائیں گے۔ یہیں سے افغانستان کی اندرونی سیاست کے کھلاڑیوں نے اپنا کام شروع کیا۔

اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں حریف ہونے کے باوجود اقتدار میں شریک رہے، اشرف غنی کا دونوں بار انتخاب مشکوک تھا لیکن امریکا ان کے درمیان معاہدے اور صلح کرواتا رہا۔ دوسری بار صدارتی انتخابات میں اشرف غنی ہیرا پھیری کرکے صدر بنے تو عبداللہ عبداللہ نے شراکتِ اقتدار کے فارمولے میں افغانستان حکومت کی امن کونسل کی سربراہی ہاتھ میں لی تھی۔

امریکا نے اشرف غنی انتظامیہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات سے باہر رکھا لیکن زلمے خلیل زاد کابل انتظامیہ کو اعتماد میں لیتے رہے۔ واشنگٹن کی طرف سے افغان سیاستدانوں کو اختلافات بھلا کر اکٹھے ہونے اور امن مذاکرات کی تیاری کے پیغامات دیے گئے۔ افغان سیاستدانوں اور جنگی سرداروں نے الگ الگ امن منصوبے بنائے اور کسی ایک پر اتفاق کی کوشش نہ کی۔ کابل میں نصف درجن امن منصوبے اور ان کے ڈرافٹ گردش کرتے رہے۔

مارشل دوستم کے منصوبے میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی تجاویز تھیں، حکمت یار کا خیال تھا کہ کوئی اتحادی حکومت بنانے کے بجائے غیر متنازع شخصیات پر مشتمل نمائندہ حکومت بنائی جانی چاہیے، اشرف غنی کا مطالبہ تھا کہ طالبان پہلے جنگ بندی پر آمادہ ہوں اس کے بعد الیکشن اور انتقالِ اقتدار کے مراحل طے کیے جائیں۔ افغان طالبان نے پورے مذاکراتی عمل میں یکساں مؤقف رکھا اور کابل انتظامیہ اور اس کے اتحادی سیاستدانوں یا جنگی سرداروں کے منصوبوں پر کوئی بھی بات کرنے سے گریز کی پالیسی اپنائی۔

امریکا  نے طالبان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے سے اشرف غنی حکومت کو باہر رکھا
امریکا نے طالبان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے سے اشرف غنی حکومت کو باہر رکھا

سابق امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ معاہدے کے تحت امریکی فوجی انخلا کی ڈیڈلائن یکم مئی مقرر ہوئی تھی لیکن بائیڈن نے اسے بڑھا کر 11 ستمبر کیا۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ اس عرصے میں فریقین کو میز پر بٹھا کر فوجیں نکال لی جائیں گی اور ایک سال تک طالبان کابل پر قبضے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، یوں مذاکرات کے لیے مناسب وقت مل جائے گا۔ امریکا نے دوحہ سے ہٹ کر استنبول میں کانفرنس کا منصوبہ بنایا لیکن یہ کانفرنس نہ ہو پائی اور وقت نکلتا چلا گیا۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی جو کابل میں سب سے بڑے سیاسی کھلاڑی ہیں اور اقتدار سے باہر بیٹھے تھے، انہوں نے 4، 5 ماہ پہلے نئی انٹری دی اور امن منصوبہ پیش کردیا۔ اس منصوبے کی حمایت کے لیے انہوں نے جنگی سرداروں اور سرکردہ سیاستدانوں کو بھی اعتماد میں لیا۔ امریکا کے خلاف کھل کر بولنے والے کرزئی دوبارہ انٹری کے بعد واشنگٹن پر تنقید سے گریز کرنے لگے اور خاموشی کے ساتھ اپنے منصوبے پر کام شروع کیا۔

حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ نے پہلے سے سیاسی تنہا صدر اشرف غنی کو مزید تنہا کیا اور منصوبے کی جزیات پر کام کیا۔ منصوبہ اشرف غنی انتظامیہ سے مذاکرات کے بجائے جنگی سرداروں سے الگ الگ معاہدوں کی صورت میں آزمایا گیا، طالبان نے جس صوبے کا رخ کیا وہاں کے جنگی سرداروں نے مزاحمت کے بغیر ہتھیار ڈالنا شروع کردیے۔ جنگی سرداروں کو معاہدوں پر آمادہ کرنے کے لیے شراکت داری کے لالچ کے ساتھ دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اسماعیل خان جیسے کمانڈر بھی معاہدوں کے نتیجے میں سرنڈر کرگئے اور امریکا کو انٹیلی جنس اندازوں کی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا۔

مقامی سرداروں  نے کسی ایک منصوبے پر اتفاق کرنے کے بجائے اپنے اپنے منصوبے پیش کیے
مقامی سرداروں نے کسی ایک منصوبے پر اتفاق کرنے کے بجائے اپنے اپنے منصوبے پیش کیے

طالبان کی نئی حکومت کیسی ہوگی اور اس کا ڈھانچہ کیا ہوگا؟

اس سوال پر طالبان کی بھی تیاری نہیں تھی۔ دوحہ میں طالبان قیادت اس جواب کی تلاش میں سر جوڑے بیٹھی ہے اور اس بار انہوں نے افغانستان کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ قرار دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی حکومت کے نام اور ڈھانچے پر مشاورت ہو رہی ہے اور جلد اس کا اعلان کیا جائے گا۔ اس بار طالبان کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے قانونی جواز اور بین الاقوامی برادری میں قبولیت۔

اس مسئلے سے نمٹنے میں 3 رکنی کونسل ان کی مدد کر رہی ہے جس کے ارکان میں سابق صدر حامد کرزئی، امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور جنگی سردار گلبدین حکمت یار شامل ہیں۔ اس کونسل سے مذاکرات کے لیے افغان سیاسی دفتر سے نمائندہ امیر خان متقی کابل پہنچے ہیں اور حامد کرزئی کے اپنے الفاظ میں طالبان حکومت کے قانونی جواز پر کام ہو رہا ہے۔ حامد کرزئی نے کہا کہ طالبان ملک پر غالب آگئے ہیں دعا ہے ان کا غلبہ مضبوط ہو اور ملک کے لیے فائدہ مند ہو۔ کرزئی کے یہ الفاظ طالبان کے ساتھ ان کے خفیہ معاہدے کی نشاندہی کرتے ہیں۔

طالبان کی طرف سے حکومتی ڈھانچے کا اعلان قانونی جواز مہیا ہونے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔ اس قانونی جواز کے راستے کیا ہوں گے، اس حوالے سے خبر تو نہیں آئی لیکن 3 امکانات موجود ہیں۔

پہلا امکان

امن کونسل کا مینڈیٹ استعمال کیا جائے گا اور طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر عبداللہ عبداللہ اور ان کی کونسل دستخط کردے گی۔

دوسرا امکان

افغانستان میں آئین کوئی بھی ہو لیکن سب سے سپریم ادارہ لویہ جرگہ ہے، اور لویہ جرگہ بلا کر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔

تیسرا امکان

تیسرا اور موہوم امکان یہ ہے کہ افغان پارلیمنٹ کسی امن منصوبے اور انتقال اقتدار کو سند فراہم کردے۔

طالبان بھی اپنے حکومتی ڈھانچے کے حوالے سے یکسو نہیں ہیں
طالبان بھی اپنے حکومتی ڈھانچے کے حوالے سے یکسو نہیں ہیں

قانونی جواز ملنے کے بعد طالبان بھی حکومتی ڈھانچے کی تشکیل میں یکسو ہوسکیں گے اور شراکتِ اقتدار کے انفرادی معاہدوں پر عمل کرتے ہوئے دیگر فریقین کو نمائندگی دی جائے گی اور یہ کہا جاسکے گا کہ نئی حکومت جامع اور نمائندہ افغان حکومت ہے۔ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور دیگر سیاستدان طالبان کی حکومت کو اندرونی طور پر جواز فراہم کرنے کے ساتھ بین الاقوامی برادری کو منانے میں بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔

کیا طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی برادری میں جگہ ملے گی

اس سوال کا جواب فوری طور پر آنے والے ردِعمل سے لگانا پڑے گا۔

امریکا اور یورپی ممالک

امریکا کی طرف سے سخت ردِعمل کا امکان تھا لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے طالبان حکومت کو مشروط طور پر تسلیم کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ امریکا طالبان کی حکومت کو صرف اسی صورت میں تسلیم کرے گا جب وہ خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے اور دہشتگردی سے اجتناب کریں گے۔ امریکا کے اس ردِعمل سے پہلے برطانوی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ برطانیہ طالبان کو جوابدہ بنانے کے لیے پابندیوں سمیت تمام دستیاب ذرائع بروئے کار لائے گا۔

امریکی صدر کی طرف سے طالبان کو لتاڑنے کے بجائے افغان سیاستدانوں پر انگلی اٹھانا اور محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان کا بیان بتاتا ہے کہ امریکی قیادت تسلیم کرنے والا برطانیہ بھی واشنگٹن کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ فرانس کے صدر میکرون نے طالبان کی حکومت بننے کے امکانات پر سخت تشویش ظاہر کی ہے جبکہ جرمنی بھی خدشات کا شکار ہے لیکن واشنگٹن کی پالیسی سے قدم ملانا ان کے لیے اہم ہے۔

پاکستان

امریکا اور یورپ کا ردِعمل اہم ہے لیکن نئی افغان حکومت کے لیے یہ زیادہ اہم ہوگا کہ خطے کے ممالک کیا سوچتے ہیں اور وہ کیا کریں گے۔ پاکستان کا مؤقف قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سامنے آچکا ہے کہ پاکستان افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی پر مشتمل سیاسی حل کا حامی ہے۔ پاکستان کا مؤقف بتاتا ہے کہ طالبان اور تین رکنی کونسل کے منصوبے پر اسلام آباد کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ شاید اسلام آباد ان مذاکرات میں مددگار کی حیثیت بھی رکھتا ہوگا کیونکہ پاکستان مسئلے کے تمام فریقین کے ساتھ رابطے میں تھا اور اسلام آباد میں اس حوالے سے کئی اہم رہنما ملاقاتیں بھی کرتے رہے ہیں۔

پاکستان افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی پر مشتمل سیاسی حل کا حامی ہے
پاکستان افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی پر مشتمل سیاسی حل کا حامی ہے

چین، روس اور ایران کے لیے افغانستان میں طالبان کا دوبارہ ابھرنا ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا تھا لیکن ان تینوں ملکوں نے پیش بندی کر رکھی تھی۔ ایران اور روس نے ماضی کے برعکس پالیسی اپنائی تھی، ماضی میں یہ دونوں ملک طالبان مخالف قوت شمالی اتحاد کو مدد دیتے رہے تھے، لیکن اس بار ان دونوں ملکوں نے طویل مدت سے طالبان کے ساتھ روابط بنا لیے تھے۔ افغان طالبان کے دوسرے امیر ملا اختر منصور ایران سے واپسی پر امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے اور دنیا کو ایران-طالبان روابط کا علم ہوا تھا۔

ایران

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے سبکدوش ہونے والے وزیرِ خارجہ جواد ظریف سے ملاقات میں کہا کہ افغانستان میں ’امریکی انخلا اور شکست‘ سے ملک میں پائیدار امن کا موقع پیدا ہوا ہے۔ افغان شہریوں کی سلامتی، استحکام اور فلاح کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔ ایران استحکام قائم کرنے کے لیے کوششں کرے گا۔ یہ افغانستان کی سب سے پہلی ضرورت ہے۔ ہمسایہ ملک کی حیثیت سے یہ تمام گروہوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ قومی اتفاق پیدا کریں۔

روس

روس نے بھی طالبان کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ روس کے نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوف نے کہا کہ ’طالبان سے وسط ایشیا کو کوئی خطرہ نہیں اور اس کے کوئی شواہد بھی نہیں۔ روس نے طالبان کے ساتھ پیشگی تعلقات بنا لیے ہیں اور طالبان کے ساتھ روس کے طویل مدتی روابط ہیں۔ ہم افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے امکانات پر طالبان قیادت کے ساتھ عرصہ سے بات کر رہے تھے اور طالبان نے یقین دلایا تھا کہ ان کے افغانستان سے باہر کوئی عزائم نہیں اور انہوں نے 2000ء کے تجربات سے سیکھا ہے‘۔

ضمیر کابلوف نے کہا کہ ’اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پُرسکون ہوجائیں، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں بین الاقوامی دہشتگرد افغانستان میں جگہ بنالیں اور وہ وسط ایشیا میں ہمارے اتحادیوں کے لیے خطرہ ہوں‘۔

ضمیر کابلوف کا بیان صاف نشاندہی کرتا ہے کہ روس طالبان کے اقتدار کے لیے عرصہ سے ذہنی طور پر نہ صرف تیار تھا بلکہ اسے تسلیم بھی کرلے گا۔

چین

چین نے بھی طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چینینگ سے سوال کیا گیا کہ کیا چین طالبان کی حکومت تسلیم کرلے گا؟ اس پر ترجمان نے کہا کہ ’چین افغان عوام کے انتخاب کا احترام کرے گا۔ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسی اسلامی حکومت کے قیام کے لیے بات چیت کریں گے جو سب کی ترجمان ہو اور افغان عوام اور غیر ملکی مشنز کی حفاظت کو یقینی بنائے‘۔

چین  نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے
چین نے بھی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا ہے

موجودہ حالات میں تمام اہم ملک طالبان کو کسی نہ کسی صورت تسلیم کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان حالات میں چین، پاکستان اور بھارت کو افغانستان کے حوالے سے زیادہ دلچسپی اور تشویش ہے جس کی نوعیت الگ الگ ہے۔ تینوں ملکوں نے طالبان کو مستقبل میں افغانستان کی سیاسی حقیقت کے طور پر بھانپ لیا تھا اور طالبان قیادت کے ساتھ روابط رکھے ہوئے تھے۔

افغان طالبان کے کابل پر قبضے کو پاکستان میں بھارت کی اسٹرٹیجک شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ کالعدم تحریکِ طالبان اور دیگر انتہا پسند گروپوں کا حوصلہ بڑھنے پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ بھارت کو طالبان کی فتح کے بعد کشمیر میں علیحدگی پسندی بڑھنے کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں اور افغانستان کے قونصل خانوں اور اشرف غنی انتظامیہ کی مدد سے وہ پاکستان کے لیے جو مسائل کھڑے کررہا تھا وہ راستے بند ہوگئے ہیں۔ ساتھ ہی کابل میں بھارت کے تمام دوست راہِ فرار اختیار کرگئے ہیں۔

خطے کی سیاست افغانستان میں تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکا کا اتحادی بھارت واشنگٹن کے نکلتے ہی کابل میں غیر متعلق ہوچکا ہے۔ روس جو 3 دہائیاں قبل دریائے آمو کے پار واپس جانے پر مجبور ہوا تھا اس نے امریکی اتحادیوں کو بھاگ کر ازبکستان میں پناہ لیتے دیکھا اور بدلے کی آگ ٹھنڈی ہوئی، بدلے کی آگ اس لیے کہ ماسکو طالبان کو امریکی فوجیوں کے قتل پر انعامات دیتا رہا اور امریکی میڈیا چیختا رہا۔

چین جو امریکی فوجی موجودگی سے مضطرب تھا اس کی روانگی سے خوش ہے اور علاقائی سیکیورٹی کا انچارج بننے کو بیتاب بیٹھا ہے اور اس کے ساتھ افغانستان کو سنکیانگ میں سرگرم گروپوں کی آماجگاہ بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایران بھی امریکی انخلا کو شکست سے تعبیر کرکے خوشی منا رہا ہے اور خطے میں افغان مسئلے پر بھارت تنہا دکھائی دیتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ طے ہے کہ افغان طالبان کے اقتدار کی کوئی بھی شکل ہو فی الحال سب اسے تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں