جو بائیڈن نے افغانستان کی صورتحال کا ملبہ افغان فوج اور رہنماؤں پر ڈال دیا

اپ ڈیٹ 17 اگست 2021
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر کرنا نہیں تھا — تصویر: رائٹرز
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر کرنا نہیں تھا — تصویر: رائٹرز

کابل میں افراتفری کی صورتحال کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے پیچھے ڈٹ کے کھڑے ہیں اور انہوں نے موجودہ صورتحال کی ذمہ داری افغان فوج اور رہنماؤں پر عائد کی۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق کئی دنوں سے ٹیلیویژنز پر چھائی چیخ و پکار کے مناظر کے بعد امریکی فوج کے انخلا پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے انہوں نے طالبان کے افغانستان پر قبضے کا الزام افغان سیاسی رہنماؤں پر، جو ملک سے فرار ہوگئے، اور امریکی تربیت یافتہ افغان فوج پر عائد کیا، جنہوں نے عسکری گروہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔

ساتھ ہی وہ کابل میں ختم کی گئی مغربی حمایت یافتہ حکومت پر تنقید کرنے سے نہیں ہچکچائے اور کہا کہ امریکی فوج ایسی قوم کا دفاع نہیں کر سکتی جس کے رہنما مثلاً افغان صدر اشرف غنی ’ہار مان کر فرار‘ ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: 'مسئلہ ادھورا رہ گیا'، افغانستان سے امریکی انخلا پر عالمی رہنماؤں کا ردعمل

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ہم نے انہیں اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا ہر موقع دیا، ہم انہیں ان کے مستقبل کے لیے لڑنے کا حوصلہ نہیں دے سکتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا مشن کبھی بھی قوم کی تعمیر کرنا نہیں تھا۔

ساتھ ہی طالبان رہنماؤں کو خبردار کیا کہ اگر وہ امریکی انخلا میں مداخلت کرتے ہیں تو انہیں ’تباہ کن قوت‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خیال رہے کہ جو بائیڈن امریکی سفارتکاروں اور شہریوں کے ساتھ ساتھ امریکا کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہری، جنہیں انتقام کا سامنا ہوسکتا ہے، کے محفوظ انخلا کے لیے امریکی فوجیوں کی کمک دوبارہ کابل بھیجنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں فوری طور پر نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے، سلامتی کونسل

جو بائیڈن کی طالبان کے قبضے سے متعلق پیش گوئی کے بعد افغانستان سے افراتفری میں انخلا ناگزیر نہیں تھا جس سے عالمی منظر نامے پر امریکا کے تشخص کو ٹھیس پہنچی کیوں کہ امریکی صدر نے عالمی رہنماؤں پر زور دینے کی کوشش کی ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 4 سال کی ہنگامہ آرائی کے بعد ’امریکا واپس آگیا ہے‘۔

انخلا نے یہ خدشہ بھی پیدا کیا ہے کہ القاعدہ جیسے عسکریت پسند گروہ طالبان کی حکومت میں دوبارہ شامل ہوں گے۔

افغان پالیسی پر ہونے والی تنقید مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ 'میں اپنے فیصلے کے ساتھ کھڑا ہوں، 20 برسوں بعد میں نے مشکل طریقے سے سیکھا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے لیے کبھی اچھا وقت نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ ہم اب بھی وہاں موجود ہیں'۔

جو بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے کابل میں افراتفری کے کچھ مناظر دیکھے ہیں جو ناخوشگوار ہیں لیکن انہوں نے انخلا جلد اس لیے نہیں شروع کیا تھا کہ اشرف غنی بڑے پیمانے پر ہجرت نہیں چاہتے تھے۔

سیاسی خطرات غیر واضح

انہوں نے تسلیم کیا کہ ملک پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے لیے طالبان کی رفتار غیر متوقع تھی۔

طالبان کی تیزی سے پیش قدمی نے امریکی حکام کو دنگ کر دیا جنہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ افغان فوج یا تو عسکریت پسندوں کو پسپا کرے گی یا انہیں مہینوں تک روکے رکھے گی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا قبضہ: افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اور اب آگے کیا ہونے جارہا ہے؟

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ سچائی یہ ہے کہ یہ ہماری توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے سامنے آیا تو کیا ہوا؟ افغان سیاسی رہنماؤں نے ہار مان لی اور ملک سے فرار ہوگئے اور افغان فوج نے بھی بیشتر علاقوں میں بغیر لڑے ہی ہار مان لی۔

جو بائیڈن نے اپنی ریپبلکن پیش رو کی تنقید کو بھی مسترد کیا جنہوں نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ سے بائیڈن کے مطابق عسکری گروہ اپنی مضبوط ترین پوزیشن میں آگیا تھا۔

انہوں نے 2 افغان رہنماؤں، اشرف غنی اور افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ، کا نام لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیہ کرنے کا ان کا مشورہ مسترد کردیا تھا۔

امریکی صدر نے کہا کہ ’آپ مجھے امریکی بیٹوں اور بیٹیوں کی کتنی نسلیں افغانوں سے لڑنے کے لیے بھیجنے دیتے جبکہ افغان فوج نہیں لڑ رہی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ کتنی مزید زندگیاں، آرلنگٹن نیشنل قبرستان میں قبروں کے کتبوں کی کتنی نہ ختم ہونے والی قطاریں، امریکی زندگیاں اس کی مستحق نہیں تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں