افغانستان سے لوگوں کے انخلا میں تیزی

اپ ڈیٹ 20 اگست 2021
ایئرپورٹ پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے خاندانوں کو گھر واپس آنا چاہیے، ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا، طالبان - فائل فوٹو:رائٹرز
ایئرپورٹ پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے خاندانوں کو گھر واپس آنا چاہیے، ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا، طالبان - فائل فوٹو:رائٹرز

طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد لوگوں کے انخلا کی کوششوں میں تیزی دیکھی جارہی ہے اور اب تک تقریباً 2 ہزار 200 سے زائد سفارتکار اور دیگر شہریوں کو فوجی طیاروں کے ذریعے ملک سے نکالا جاچکا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے کہا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں اور پرانے دشمنوں سے انتقام نہیں لیں گے اور اسلامی قانون کے دائرے میں خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔

تاہم ہزاروں افغان جن میں سے کئی نے دو دہائیوں کے دوران امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کی مدد کی تھی، وہاں سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔

مغربی سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ 'ہم بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں، لاجسٹکس میں ابھی تک کوئی خرابی نہیں دکھائی دے رہی اور ہم سفارتخانوں کے لیے کام کرنے والے 2 ہزار 200 سے زائد سفارتی عملے، غیر ملکی سیکیورٹی عملے اور افغانیوں کو نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں'۔

مزید پڑھیں: افغانستان کی صورتحال پر بورس جانسن، انجیلا مرکل کا وزیراعظم کو ٹیلی فون

انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ شہری پروازیں کب دوبارہ شروع ہوں گی۔

عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ 2 ہزار 200 افراد میں سے کتنے افغان تھے اور نہ ہی یہ واضح ہو سکا کہ اس تعداد میں 600 سے زائد افغان مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں، جو امریکی فوج کے طیارے میں گھس گئے تھے۔

غیر ملکی افواج کو نکالنے کے لیے 2001 سے برسرپیکار طالبان نے اتوار کو کابل پر قبضہ ایسے موقع پر کیا جب امریکی قیادت میں مغربی افواج ایک معاہدے کے تحت واپس چلی گئی ہیں۔

ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے والی امریکی افواج کو پیر کے روز پروازیں روکنا پڑیں کیونکہ ہزاروں افغان پرواز کی تلاش میں رن ویز پر گھس گئے تھے۔

تاہم منگل کو صورتحال قابو میں آنے کے بعد پروازوں کا دوبارہ آغاز کردیا گیا۔

طالبان کا کہنا تھا کہ ان کے رہنماؤں اور شریک بانیوں میں سے ایک ملا عبدالغنی برادر 10 سال سے زائد عرصے میں پہلی مرتبہ افغانستان واپس آئے ہیں۔

ملا عبدالغنی برادر کو 2010 میں پاکستان میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی درخواست پر 2018 میں جیل سے رہا کیا گیا تاکہ وہ امن مذاکرات میں حصہ لے سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حکومت جامع نہیں ہوئی تو ہر افغان مزاحمت کرے گا، احمد ولی مسعود

ان کی واپسی پر ترجمان طالبان نے تحریک کی پہلی نیوز بریفنگ رکھی جس میں یہ تجویز دی گئی کہ وہ 1996-2001 کے درمیان اپنے اقتدار کے وقت کے مقابلے میں اپنے قوانین کو زیادہ نرمی سے نافذ کریں گے۔

طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم کوئی اندرونی یا بیرونی دشمن نہیں چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی اور وہ معاشرے میں بہت فعال ہوں گی لیکن اسلام کے دائرے میں رہیں گی۔

افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی نمائندہ رمیز الکباروف نے رائٹرز کو بتایا کہ طالبان نے اقوام متحدہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کا کام کر سکتے ہیں جو شدید خشک سالی کا شکار ہے۔

یورپی یونین نے کہا کہ وہ طالبان حکام کے ساتھ صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ اگر وہ بنیادی حقوق بشمول خواتین کے حقوق کا احترام کریں۔

خواتین کے شکوک و شبہات

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

افغان لڑکیوں میں تعلیم کی سرگرم کارکن 23 سالہ پشتانہ درانی طالبان کے وعدوں سے محتاط نظر آئیں۔

انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ 'انہیں اپنی بات پر قائم رہنا چاہیے، ابھی وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں'۔

افغانستان میں طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کے دوران کئی خواتین کو نوکری چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان سابق فوجیوں اور سرکاری افسران کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کریں گے اور سابق فوجیوں کے ساتھ ساتھ کنٹریکٹرز اور ترجمہ کرنے والوں کے لیے عام معافی دے رہے ہیں جو بین الاقوامی افواج کے لیے کام کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: قومی سلامتی کمیٹی کا افغانستان میں سیاسی حل، عدم مداخلت کے اصول پر عمل کا اعادہ

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا، کوئی آپ کے دروازے پر دستک نہیں دے گا۔

ترجمان طالبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایئرپورٹ پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے خاندانوں کو گھر واپس آنا چاہیے، ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوگا۔

طالبان کا مصالحت آمیز لہجہ افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کے ریمارکس سے متصادم ہے جنہوں نے صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑنے کے بعد خود کو 'جائز نگران صدر' قرار دیا تھا اور کابل کے نئے حکمرانوں کے سامنے نہ جھکنے کا عہد کیا تھا۔

اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امراللہ صالح کہیں چھپ گئے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کئی دہائیوں کے تنازع سے تنگ ملک میں کتنی مدد اکٹھا کر سکتے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ وہ افغانستان کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی اور نقطہ نظر پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے گروپ آف سیون لیڈرز کا ایک ورچوئل اجلاس اگلے ہفتے منعقد کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں