لکھاری مصنف ہیں۔
لکھاری مصنف ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے تو جیسے افغانستان تشتری میں سجا کر طالبان کے حوالے کردیا ہے۔ افغانستان سے انخلا کے معاملے پر ان کی بدانتظامی کے بعد یوں لگتا ہے کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کی کنجی بھی اپنے پیشرو صدر ٹرمپ کو سونپ دی ہے۔

2020ء میں بہت سے امریکی مشاہدہ کار اس سوچ میں مبتلا تھے کہ صدارت کی دوڑ میں حصہ لینے والے دونوں امیدواروں یعنی اس وقت 77 سالہ بائیڈن اور 74 سالہ ٹرمپ میں سے جو بھی جیتا وہ اپنی صدارتی مدت کی تکمیل تک زندہ رہ سکے گا بھی یا نہیں۔ تب سے اب تک بائیڈن کی کارکردگی اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔

کبھی ان کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں، تو کبھی اٹک جاتے ہیں، دھیمی آواز میں بولتے ہیں اور بعض اوقات ان کا اندازِ بیان غیر سنجیدہ ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی طاقتور ترین فوج کے سویلین کمانڈر اِن چیف ہیں۔ مگر بظاہر وہ اس شکست خوردہ نیپولین جیسے نظر آتے ہیں جو اپنے جزیرہ ایلبا سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

افغانستان سیاہی کے بجائے پانی سے لکھی تاریخ کی ایک کتاب معلوم ہوتا ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا دوسرا خطہ ہوگا جس کے تنازعات پر اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہوں گی، مگر لگتا ہے کہ ان کتابوں میں موجود اسباق یا تو کسی نے پڑھے نہیں یا اگر پڑھیں بھی ہیں تو ان سے کچھ سیکھا نہیں۔

1840ء کی دہائی میں برطانویوں نے دوست محمد کو افغان تخت سے اٹھایا اور شاہ شجاع کو بٹھا دیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں روسیوں نے ببرک کرمل کو ہٹایا اور ان کی جگہ خاد (خفیہ افغان پولیس) کے سربراہ محمد نجیب اللہ کو لے آئے۔ رواں صدی میں ہم نے دیکھا کہ کیسے چوغہ پوش ڈمی یعنی حامد کرزئی کو ایک اور امریکی نواز اشرف غنی کے لیے کرسی خالی کرنی پڑی۔ 2014ء سے اشرف غنی کابل میں قائم امریکی سفارت خانے پر لہراتے امریکی جھنڈے کے 51ویں ستارے کے طور پر چکمتے دمکتے رہے، پھر اس جھنڈے کے سرنگوں ہونے کے ساتھ وہ ستارہ بھی ماند پڑگیا۔

مزید پڑھیے: زوالِ سوویت یونین

1842ء میں برطانوی افواج کی جانب کابل کا میدان چھوڑنے کے واقعے کو کوئی ریکارڈ کرنے والا نہیں تھا۔ بعدازاں لیڈی بٹلر نے اپنی پینٹنگ کے ذریعے 4 ہزار 500 کے لشکر اور 12 ہزار حامی شہریوں میں سے زندہ بچ جانے والے واحد شخص ڈاکٹر برائڈن کی ایک تصوراتی منظرکشی کی تھی، جس میں وہ اپنے تھکے ہارے گھوڑے پر جلال آباد کے قلعے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ برطانویوں کے لیے ڈنکرک سے پہلے تک یہی جنگ مصیبت میں جیت کی علامت تصور کی جاتی تھی۔

اگست 2021ء میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والی بدنظمی کے مقابلے میں 89ء-1988ء میں روسی فوج کی افغانستان سے واپسی کو فوجی نظم و ضبط کا مثالی نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر کرنل جنرل Boris Gromov اپنے جذبات پر قابو رکھتے تو 15 مئی 1988ء سے لے کر 15 فروری 1989ء تک 9 ماہ پر مشتمل جاری رہنے والے سوویت فوج کے انخلا کو بہتر انداز میں دستاویزی صورت میں محفوظ کیا جاسکتا تھا۔

افغانستان کو اس وقت کے یو ایس ایس آر سے ملانے والے 'دوستی پل' پار کرنے والے وہ آخری شخص تھے۔ Gromov کے انتظار میں کئی ٹیلی وژن ٹیمیں کھڑی تھیں۔ جب انہوں نے انٹرویو لینے کی کوشش کی تو Gromov نے انہیں کھری کھری سُنا دی۔ بعدازاں جب ان کا مزاج ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں غصہ دراصل ملک کی اس قیادت پر تھا، وہ جو جنگیں شروع کرتے ہیں اور پھر دیگر کو اس کے نتیجے میں پھیلا گند صاف کرنا پڑجاتا ہے'۔ ایک زمانے کے بعد پینٹاگون میں بیٹھے امریکی جنرل بھی یہی الفاظ اپنی زبان میں زیرِ لب ادا کررہے ہوں گے۔

کابل ایئرپورٹ پر افراتفری کے مناظر بے شمار ٹی وی چینلوں اور دنیا میں موجود کم از کم 18 ارب موبائل فونز پر بار بار دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ ناظرین پینٹاگون پر ضرور گراں گزرتے ہوں گے۔ اس کے اعلیٰ افسران پر کیوبا پر مشکلیں ٹوٹیں۔ ویتنام میں خون بہا۔ عراق کی چوٹ تازہ ہے اور اب اسے افغانستان کا کڑوا گھونٹ حلق سے اتارنا ہوگا۔

مزید پڑھیے: جب اندھیرے میں طالبان پر تیر چلتے ہیں

اس کی قیادت اگرچہ مشکل سے سہی مگر افغانستان میں اس ہار کی رسوائی قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ تاہم یہ سوچ ستاتی ہے کہ اگر بائیڈن کی سانسیں 2024ء سے قبل ہی رُک گئیں تو کتنے ایسے لوگ ہوں گے جن سے وائٹ ہاؤس میں ایک خاتون کی موجودگی ہضم ہوگی؟ کیونکہ جو بائیڈن کی عدم موجودگی میں کمالا ہیرس امریکا کی پہلی خاتون کمانڈر اِن چیف اور براک اباما کے بعد پہلی غیر سفید فام چیف بن جائیں گی۔

یقیناً 7 کروڑ 42 لاکھ 22 ہزار 958 امریکی جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا وہ تو بالکل بھی انہیں قبول نہیں کریں گے۔ اگرچہ وہ (اپنے ہیرو ٹرمپ کی طرح) بائیڈن کے مواخذے کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ جانتے ہیں کہ ان کے عہدے سے ہٹنے کی امید نہیں باندھی جاسکتی، البتہ خدا ایسا چاہے تو دوسری بات ہے۔

صدارتی انتخابات میں ابھی 3 سال کا عرصہ پڑا ہے۔ اس وقت فوری اہمیت کا حامل معاملہ امریکا، نیٹو اور ان کی اتحادی حکومتوں کے لیے خدمات انجام دینے والے افغانوں کا تحفظ اور انہیں اپنے ہاں بسانا ہے۔ مثلاً آسٹریلیا جو نیٹو رکن نہیں ہے لیکن امریکی فوجی اتحاد کا حصہ رہا، اس ملک نے 18 ہزار افغان شہریوں کو ٹھہرایا ہے۔

2009ء میں کینیڈا نے افغان شرکا کار کے لیے خصوصی اسکیم کا اعلان کیا تھا اور پھر دو تہائی افراد کی درخواستیں مسترد کردیں۔ اِس وقت کینیڈا نے 'خواتین رہنماؤں، انسانی حقوق کی کارکنان اور نامہ نگاروں' کو اوّلین ترجیح دیتے ہوئے 20 ہزار 'خطرے سے دوچار افغانوں' کو پناہ دینے کا ارادہ کیا ہے۔

فرانس نے تقریباً '270 افغان ترجمانوں اور سپورٹ عملے' کو پناہ دی ہے۔ برطانیہ نے '3 ہزار 100 افراد پر مشتمل سابق افغان عملے اور ان کے اہلِ خانہ' کو پناہ دی ہے۔ امریکا اسپیشل امیگرینٹ ویزا کے لیے 80 ہزار درخواستوں کی توقع کر رہا ہے، جن میں سے 2 ہزار سے زائد افراد کی درخواستوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے انہیں بذریعہ ہوائی جہاز افغانستان سے نکالا جاچکا ہے۔

مزید پڑھیے: افغانستان کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا؟

آسٹریا نے یورپ کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے انسان دوست اقدامات 'افغان باشندوں کی اکثریت کو خطے یعنی افغانستان کی سرحدوں سے ملحقہ '-ستانوں' یعنی (ترکمنستان، ازبکستان، تاجکستان اور پاکستان) تک محدود رکھنے کے لیے ہونے چاہئیں۔ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ افغان مغرب کے اب حلق تک آگئے ہیں۔

10ویں صدی میں بلخ کے شاعر نے کسی وقت میں لکھا تھا کہ، 'کڑوے بیج کے درخت کو چاہے جتنا مکھن اور شکر دو، پھر بھی وہ کڑوا ہی پھل دے گا'۔ برطانویوں، روسیوں اور امریکی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد میں شامل 50 ملکوں نے افغان سرزمین پر اپنے ناکام منصوبوں کا جو مزہ چکھا ہے وہ انہیں صدیوں تک نہیں بھولے گا۔


یہ مضمون 26 اگست 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں