افغانستان سے متعلق تمام جائزے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2021
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا فغانستان کی صورتحال پر 6 ملکی ورچوئل کانفرنس سے خطاب—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا فغانستان کی صورتحال پر 6 ملکی ورچوئل کانفرنس سے خطاب—فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی افغان سیکیورٹی فورسز کے پیچھے ہٹنے اور حکومت کے خاتمے سمیت افغانستان کی صورتحال میں حالیہ تبدیلی کی توقع نہیں کرسکتا تھا تمام گزشتہ جائزے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔

اسلام آباد میں افغانستان کی صورتحال پر منعقدہ 6 ملکی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والی پیش رفتوں نے ہمارے خطے کو عالمی منظر نامے پر اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح صورتحال تبدیل ہوئی اس کے افغانستان، ہمارے خطے اور دنیا پر بھی اثرات ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان آج افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے ورچوئل اجلاس کی میزبانی کرے گا

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان پیش رفتوں کی فوری اور غیر متوقع نوعیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بات اہم ہے کہ بڑے پیمانے پر خونریزی نہیں ہوئی ساتھ ہی طویل تنازعات اور خانہ جنگی کے امکانات ٹل گئے۔

انہوں نے کہا کہ کم از کم اب تک بہت زیادہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کا انخلا نہیں ہورہا تاہم ہر طرح سے صورت حال پیچیدہ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ البتہ ایک چیز یقینی ہے کہ ہم سب افغانستان میں ایک تبدیل شدہ حقیقت دیکھ رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ طالبان نے عبوری حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا ہے ہم نے اس پیش رفت کو نوٹ کرلیا ہے، ہم اُمید کرتے ہیں کہ سیاسی صورتحال جلد از جلد مستحکم ہو کر معمول کے مطابق ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نئی صورتحال پرانی عینکیں پھینکنے، نئی بصیرت کی ترقی اور ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھنے کا تقاضہ کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: ملا حسن اخوند وزیراعظم اور ملا عبدالغنی ان کے نائب ہوں گے، طالبان کا عبوری حکومت کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوششوں کا مرکز افغان عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے جو 40 برسوں سے جاری تنازعات اور عدم استحکام کے باعث بہت زیادہ متاثر ہوئے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں ہوئی حالیہ پیش رفت کے تناظر میں اہم ترجیحات انسانی بحران کو روکنا ہے جو افغانوں کی مشکلات بڑھا سکتا ہے ساتھ ہی ملک میں معاشی بدحالی کو روکنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر انسانی بحران کو روکا جائے اور معاشی استحکام کی یقین دہانی کرائی جائے تو امن مضبوط اور بڑے پیمانے پر انخلا کو روکا جا سکتا ہے۔

وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس ’اہم موڑ‘ پر عالمی برادری کے بڑھتے ہوئے رابطوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں نئی سفارتی اور بین الاقوامی موجودگی افغان عوام کو یقین دلائے گی اور اقوامِ متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کی جانب سے امداد کی فوری فراہمی اعتماد سازی کے عمل کو تقویت بخشے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کابل میں طالبان مخالف ریلیوں کو منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ

وزیر خارجہ نے نشاندہی کی کہ افغانستان کی اس کے مالی وسائل تک رسائی معاشی تباہی کو روکنے اور معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں ’اہم‘ ہوگی۔

علاقائی سفارتی دورے کے نتائج

وزیر خارجہ نے گزشتہ ماہ ایران اور وسط ایشیائی ممالک کے سفارتی دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی دورے کے دوران اہم عہدیداروں سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آگے بڑھنے کا راستہ نکالنے پر اتفاق کیا جو مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے اور تازہ ترین پیش رفت سے پیدا ہونے والے مواقع کا ادراک کرنے میں مدد دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مشاورت نے مندرجہ ذیل مسائل کو اجاگر کیا جس کے لیے افغانستان میں بدلتی صورتحال کے مطابق ایک مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی:

  • سرحدوں کے ساتھ سیکیورٹی کی صورتحال

  • افغان سرزمین کے دہشت گردوں کے استعمال کی روک تھام

  • مہاجرین کا ممکنہ انخلا

  • منشیات اسمگلنگ اور بین الاقوامی جرائم کو روکنا

  • شدت پسند عناصر کے کسی بھی پھیلاؤ کو روکنا

  • عالمی وبا کووڈ 19 سے متعلق چیلنجز

محفوظ سرحدوں، افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے، مہاجرین کی واپسی، معاشی استحکام، معیار زندگی کی بہتری اور رابطے کے منصوبوں کا ادراک اور علاقائی معاشی انضمام میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔

وزیر خارجہ نے زور دیا کہ ’پرامن، مستحکم، خوشحال اور باہم منسلک خطے کے مشترکہ وژن کو آگے بڑھانے کے لیے افغانستان کو اس آزمائشی وقت سے گزرنے اور اپنی مکمل صلاحیتوں کو سمجھنے کے قابل ہونا چاہیے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ کئی اہم اصول ہیں جو اس سمت میں کوششوں کی رہنمائی کریں گے:

  • افغان عوام کے ساتھ مکمل حمایت اور یکجہتی کی تصدیق کریں

  • افغانستان کے اتحاد، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے مکمل عزم کا اعادہ کریں

  • اس بات پر زور دیں کہ افغان مسائل کا افغانوں کے مطابق حل ہونا چاہیے

  • واضح کریں کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں

  • افغان معاشرے کی کثیر النسل نوعیت کو تسلیم کریں

  • قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دیں

وزیر خارجہ نے پڑوسی ممالک کے پلیٹ فارم کو باقاعدہ مشاورتی طریقہ کار میں تبدیل کرنے کی تجویز دی جس میں مستقبل میں افغانستان کو بھی مدعو کیا جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی اس فورم میں شرکت وہاں پائیدار امن اور استحکام کے لیے ہمارے مشترکہ مقاصد کے حصول میں اس کی تاثیر کو بڑھا دے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست حصہ ہے، بین الاقوامی برادری کے لیے ہماری اجتماعی آواز پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کے اپنے پیغام کو اپنے اور اپنے ہمسایے کے ساتھ امن کو تقویت دے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں