کابل میں امریکی ڈرون حملے پر ’سوالات‘ اٹھنے لگے

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2021
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ گاڑی سے دھماکا خیز مواد سے متعلق دیگر چیزوں کی بہت مقدار تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ گاڑی سے دھماکا خیز مواد سے متعلق دیگر چیزوں کی بہت مقدار تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

دو بڑے امریکی اخبارات نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے امریکی فوج کی جانب سے کابل میں مبینہ داعش کے دہشت گردوں پر ڈرون حملے کیے جانے پر سوالات اٹھادیے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نے 29 اگست کو کابل میں ڈرون حملہ کیا اور دعویٰ کیا تھا کہ تباہ کی گئی کار میں داعش کے ہمدرد تھے۔

مزید پڑھیں: امریکا کا افغانستان میں ڈرون حملہ

حملے کے فوراً بعد ہی امریکی سینٹرل کمانڈ نے دعویٰ کیا تھا کہ کار میں دھماکا خیز مواد موجود تھا جو کابل ایئرپورٹ کے لیے تھا۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’گاڑی سے دھماکا خیز مواد سے متعلق دیگر چیزوں کی بہت مقدار تھی‘۔

یکم ستمبر کو ایک پریس کانفرنس میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے اسے ایک ’درست حملہ‘ قرار دیا۔

رواں ہفتے کے آخر میں شائع ہونے والی رپورٹس میں نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ ان کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کار میں دھماکا خیز مواد نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کابل: 'امریکی ڈرون حملے میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 10 افراد ہلاک'

امریکی اخبارات کے مطابق کار میں امریکی امدادی گروپ نیوٹریشن کے لیے کام کرنے والے ایک انجینئر 43 سالہ زمری احمدی تھے، جو ڈرائیونگ کررہے تھے۔

ان کے اہلخانہ نے ٹائمز کو بتایا کہ زمری احمدی نے امریکا میں پناہ کے لیے درخواست دی ہوئی تھی اور جس وقت ان پر حملہ کیا گیا اس وقت وہ اہل خانہ کے لیے پینے کا پانی لے کر آرہے تھے۔

نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے امریکی فوج کی جانب سے ’دھماکوں کے لیے استعمال ہونے والے دیگر سامان‘ سے متعلق بیان پر بھی سوال کیا۔

نیویارک ٹائمز کے رپورٹرز کو جائے وقوع پر دوسرے دھماکے کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جبکہ ماہرین نے دیواروں یا پودوں کو کوئی نقصان نہ ہونے کی جانب بھی اشارہ کیا۔

سیکیورٹی کنسلٹنٹ کرس کوب اسمتھ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ’اس حملے میں انٹیلی جنس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے حملوں کے خلاف امریکی جنگی طیاروں کے ذریعے افغان سرکاری فورسز کی مدد

دھماکا خیز مواد کے ماہرین نے نیویارک پوسٹ کو بتایا کہ زیادہ تر نقصان ڈرون کی جانب سے داغے گئے ہیل فائر میزائل کی وجہ سے ہوا، اگر کوئی دوسرا دھماکا ہوتا تو وہ ایندھن کی وجہ سے ہوتا۔

کیلیفورنیا میں مقیم نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کے صدر اسٹیون کوون نے نیویارک پوسٹ کو بتایا کہ زمری احمدی کا تعلق ہماری تنظیم سے تھا، انہوں نے این ای آئی میں بے گھر افراد کے لیے ہنگامی فوڈ ایڈ پروگرام پر بات چیت کے بعد وہ اپنی کار میں چلے گئے تھے۔

ان کی جانب سے اس بات سے انکار کیا گیا کہ این ای آئی کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش سے ہے۔

انہوں نے نیویارک پوسٹ کو بتایا کہ ہم لوگوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے پاس لوگوں کو مارنے کے لیے دھماکا خیز مواد کیوں ہوگا؟

نیویارک ٹائمز نے کہا کہ ویڈیو ثبوتوں کا جائزہ لینے اور ایک درجن سے زائد زمری احمد کے دوستوں اور خاندان کے اراکین کے انٹرویو لینے کے بعد امریکی ڈرون کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں