امریکی جامعات میں چینی جاسوسوں کی تلاش کا پروگرام بند کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2021
امریکی محکمہ انصاف نے 27 کیسز شائع کیے تھے—فائل/فوٹو: رائٹرز
امریکی محکمہ انصاف نے 27 کیسز شائع کیے تھے—فائل/فوٹو: رائٹرز

امریکا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ایک گروپ نے ملک کے محکمہ انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں جامعات میں چین کے جاسوسوں کی تلاش کے لیے شروع کیا گیا پروگرام بند کردیا جائے۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پروفیسرز کا مؤقف ہے کہ یہ پروگرام نسلی امتیاز اور متعدد سائنس دانوں کو دہشت زدہ کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں زیر تعلیم چینی طلبہ کو ملک بدر کیے جانے کا امکان

رپورٹ میں کہا گیا کہ 8 ستمبر کو لکھے گئے خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 کے اواخر میں ‘چائنا انیشیوٹیو’ کے نام پروگرام شروع کیا تھا، جس کا مقصد چین کی جانب سے امریکی ٹیکنالوجی کی چوری روکنا تھا لیکن ابتدا سے ہی ‘یہ پروگرام دعوے کے مطابق مشن سے دور ہے’۔

پروفیسرز کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں اسٹینفرڈ کی فیکلٹی کے 177 اراکین کے دستخط ہے اور اس کو آج عوام کے لیے بھی جاری کردیا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ‘اس سے امریکا کی تحقیق اور ٹیکنالوجی کی مسابقت متاثر ہو رہی ہے اور یہ جانب داری کو ہوا دیتا ہے اور یہ نسلی امتیاز کے بارے میں تشویش پیدا کرتا ہے’۔

امریکی محکمہ انصاف کے ترجمان وین ہورنبکل سے چائنا انیشیٹیو پر تنقید کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت امریکی قومی سلامتی اور ہماری خطرے میں ڈالنے کی چینی حکومت کی غیرقانونی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ایشیائی نژاد امریکیوں کےخلاف نفرت انگیز جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں امتیازی سلوک کے حوالے سے انتہائی تشویش ہے’۔

محکمہ انصاف نے چائنا انیشیوٹیو سے متعلق کم از کم 27 کیسز کی تفصیلات شائع کردی ہیں، جس میں نتائج سمیت غلطی کے مرتکب افراد بھی شامل ہیں جبکہ چند کیسز واپس لیے گئے ہیں اور چند زیر تفتیش ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کی چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مخصوص ملازمین پر ویزا پابندیاں

میسیچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور ہاورڈ یونیورسٹی میں پروفیسرز بھی ان افراد میں شامل تھے جن پر اس حوالے سے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور اسی طرح جزوقتی اسکالرز کے طور پر کام کرنے والے 5 چینی سائنس دان بھی گزشتہ برس شامل کیے گئے تھے تاہم رواں برس جولائی میں ان سب پر عائد الزامات واپس لیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے ٹینسی میں وفاقی جج نے ایک پروفیسر کو بری کردیا تھا، جن پر الزام تھا کہ انہوں نے ناسا سے متعلق ریسرچ کے لیے گرانٹ کی درخواست میں چین سے تعلقات چھپائے تھے تاہم پراسیکیوٹر یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوا۔

حکومت کو خط لکھنے والے پروفیسرز میں شامل اسٹینفرڈ میں نیچرل سائل کے سینئر ایسوسی ایٹ ڈین پیٹر مائیکلسن کا کہنا تھا کہ ‘میرے خیال میں ایف بی آئی نے اکثر کیسز میں لوگوں کو دھمکانے، ان سے تفتیش اور تحقیقات کا خوف دلایا ہے اور یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے’۔

اسٹینفرڈ کے ایک اور پروفیسر اسٹیون کیولسن کا کہنا تھا کہ میں اس معاملے میں پڑا تھا کیونکہ میں نے دیکھا کہ میرے چینی نژاد ساتھی کشیدہ ماحول میں مشکل میں تھے اور ان کے ساتھ یہ سب کچھ چائنا انیشیٹیو کے تحت ہو رہا تھا۔

امریکا کے سابق سیکریٹری برائے توانائی اور نوبل انعام یافتہ اسٹینفرڈ کے پروفیسر اسٹیون چو کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی میں امریکا کی برتری اور مفاد کے تحفظ کے بجائے یہ پروگرام امریکا کے سائنسی پروگرام کے لیے خطرات کا موجب بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہم نصف صدی کا نچوڑ ہیں اور آپ ہمیں اٹھا کر دور پھینکنا چاہتے ہیں’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں