ایک کہاوت ہے کہ ’سفارتکاری کسی دوسرے کو اپنے مطابق چلانے کا فن ہے‘۔ یہ کہاوت برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ اور اطالوی سفارتکار اور مصنف ڈینیئل ویر دونوں سے منسوب ہے۔

سفارتکار عام حالات میں بھی سفارتکار ہی رہتے ہیں اور کسی کو نہیں بتاتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ تاہم ان میں سے کچھ سفارتکاری کو الوداع کہنے کے بعد ایک یا دو کتابیں تحریر کردیتے ہیں۔ ان کتابوں سے قارئین کو ان کے تجربات سے کچھ آگہی حاصل ہوجاتی ہے۔

پاکستان کے سابق سفیر سید سبطِ حسن نقوی نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ سے ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے بھی ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں بحیثیت پاکستانی سفارتکار مختلف دلچسپ واقعات اور مختلف قومی اور بین الاقوامی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی روداد بیان کی ہے۔

’جو ہم پہ گزری: میری سرگزشت اور کچھ ذکر حکمرانوں کا‘ نامی اس کتاب کا عنوان ہی یہ بتا رہا ہے کہ یہ ان کے مشاہدات اور غیر ملکی مندوبین جن میں کئی حکمران بھی تھے کے ساتھ ان کے تجربات اور کام کرنے کا بیان ہے، جسے خود نوشت سوانح حیات کے انداز میں تحریر کیا گیا ہے۔

یہ عنوان فیض احمد فیض کے ایک مشہور مصرع سے لیا گیا ہے جس میں سفارتکاروں کی جانب سے اپنے ملک کے لیے حساس اور نازک کام کرنے اور اکیلے مشکلات جھیلنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں خارجہ پالیسی سے متعلق ہونے والی اہم غلطیاں

بے شک ایک سفارتکار ہونا اپنے آپ میں مشکل کام ہے۔ تاہم سابق سفیر کرامت اللہ غوری نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں سفارتکاری کا ذکر ’دنیا کے قدیم ترین‘ پیشے کے طور پر کیا ہے جو غلط ہے۔

کرامت اللہ غوری ایک منجھے ہوئے سفارتکار اور لکھاری ہیں۔ انہوں نے سفارتکار کی حیثیت سے کام کرنے کے اصل تجربے پر زیادہ بات نہیں کی اور اسے ایک طرح کی ’منافقت‘ کہا ہے۔ اپنے اس خیال کو جواز فراہم کرنے کے لیے انہوں نے اس مشہور جملے کا حوالے دیا ہے کہ ’سفارتکار ایسا فرد ہوتا ہو جو اس طرح آپ کو شیشے میں اتارتا ہے کہ آپ خود ہی اپنا نقصان کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں‘۔

لیکن زیرِ تبصرہ کتاب کو پڑھ کر اور مصنف نے ایک اعلٰی سرکاری افسر کی حیثیت سے جو اہم اور حساس کام انجام دیے ہیں ان سے آگہی حاصل کرکے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کا عنوان بالکل درست ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں کھلے یا چھپے انداز میں نہ ہی کسی کا نقصان کیا اور نہ ہی کسی کو کچھ بُرا کہا۔

مصنف کا انداز اتنا مہذب ہے کہ انہوں نے سخت ترین واقعات کو بھی پُرسکون انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے ہمارے حکمرانوں کی بعض کمزوریوں پر انگلی اٹھانے کے بجائے بغیر کسی تبصرے کے صرف حقائق بیان کیے تاکہ قارئین اپنے اپنے نتائج خود اخذ کریں۔

ایک سادہ انداز اور سادہ زبان میں مصنف نے پاکستانی سفارت خانوں میں پیش آنے والے افسوسناک حد تک مضحکہ خیز واقعات کا ذکر کیا ہے۔ یہ واقعات ہمارے وی وی آئی پیز کا اصل چہرہ، ان کی نااہلی، نالائقی اور بعض اوقات قومی مفاد سے متعلق حساس معاملات، جن پر وہ میزبانوں کے ساتھ بات چیت کرتے تھے، کے حوالے سے ان کی عدم دلچسپی یا نااہلی یا دونوں کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسی ہو؟

کتاب میں سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’ہمارے وزیرِاعظم کھانوں کے اتنے شوقین تھے کہ جب بھی وہ بیرونِ ملک دوروں پر ہوتے تو وہاں موجود سفارتکاروں کو ملاقاتوں کے ایجنڈے سے زیادہ ان کے پسندیدہ کھانوں کے حوالے سے فکر مند ہونا پڑتا۔ پھر وزیرِاعظم سفارتکاروں کی جانب سے تیار کردہ بریفنگ اور بات چیت کے نکات کو شاز ہی پڑھتے اور عموماً دوسرے سربراہِ مملکت سے رسمی ملاقات کرنے کے بعد رفریشمنٹ کے ساتھ انصاف کرنے لگتے اور دوسرے سربراہِ مملکت کی بات پر کم ہی توجہ دیتے‘۔

انڈونیشیا میں بوسنیا کے مسلمانوں کی حالتِ زار پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کے دوران ان کی بے حسی کی انتہا دیکھی گئی۔ جب عالمی رہنما بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے پالیسی بنانے کی کوشش کر رہے تھے اس وقت ہمارے وزیرِاعظم نے پاکستانی سفیر سے کہا کہ وہ ان کے لیے ’مونگ پاپڑ‘ کا انتظام کریں، وہ اسے انڈونیشیا کی سوغات سمجھتے تھے۔

یوں مصنف اور پاکستانی ملڑی سیکرٹری کو آدھی رات کو انڈونیشیائی اہلکاروں سے ٹوکری بھر کر پاپڑ کی درخواست کرنی پڑی جسے اس وقت کے وزیرِاعظم نے خوب مزے لے کر کھایا (شکر ہے کہ انہوں نے ہوٹل کے کمرے میں پہنچنے تک انتظار کیا)۔

’بھارتی ہم منصب کے ساتھ ناشتے پر کھانوں کے شوقین ہمارے وزیرِاعظم ایک میٹنگ کے دوران مسئلہ کشمیر یا کسی بھی مسئلہ پر بات ہی نہیں کرسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت کی جانب سے جان بوجھ کر ایک بہترین لاہوری ناشتے کا اہتمام کیا گیا اور گفتگو کے لیے مختص تمام وقت ناشتے کی تعریفوں میں گزر گیا۔‘

یہ کتاب ماضی میں اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں کے بارے میں کچھ مزاحیہ لیکن قابلِ افسوس حقائق پیش کرتی ہے۔ انہیں پڑھ کر قاری بیک وقت ہنسنے اور رونے کی کیفیت میں مبتلا ہوجائے گا۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنی زندگی کے واقعات اور اس دوران پیش آنے والے اہم سیاسی واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔

اسی وجہ سے یہ ہر اس شخص کے پڑھنے کے لیے ایک اچھی کتاب ہے جو ایک سفارتکار کی زندگی کو جاننا چاہتا ہے اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والے اہم واقعات کے پیچھے کیا کچھ ہورہا تھا۔

مزید پڑھیے: ایوب کا زوال گوہر کا کمال!

بہرحال اس کتاب کی پروف ریڈنگ بہتر ہوتی تو قارئین کے وقت اور محنت کو بچایا جاسکتا تھا کیونکہ کچھ غلطیاں تو جتنی مزاحیہ ہیں اتنی ہی پریشان کن بھی ہیں۔

مصنف 1970ء کے بعد سے 35 سال تک محکمہ خارجہ میں رہے اور اس دوران ہمارے سربراہان کے کام کرنے کے انداز اور ان کے تعیشات کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے اور کسی بھی شخصیت خاص طور سے حکمرانوں پر براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ لیکن جس طرح وہ حقائق اور واقعات کو بیان کرتے ہیں اور قاری کو اپنا نکتہ سمجھاتے ہیں اس سے عموماً قاری کو اداسی گھیرے میں لے لیتی ہے۔

اس کتاب کو پڑھ کر قارئین یہ نتیجہ بھی اخذ کرسکتے ہیں کہ دُور سے تو ہم سفارتکاروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے بہترین مقامات پر بہترین وقت گزارتے ہیں لیکن حقیقت میں سفارتکاری کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ صرف سفارتکار ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ تو ان کے گھر والوں کو بھی ایسی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔


نام کتاب: جو ہم پہ گزری: میری سرگزشت اور کچھ ذکر حکمرانوں کا

مصنف: سید سبطِ حسن یحییٰ نقوی

ناشر: اٹلانٹس، کراچی

آئی ایس بی این: 9696012269-978

تعداد صفحات: 338


یہ تبصرہ 12 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jan 24, 2022 09:11pm
تبصرہ پڑھ کر کتاب پڑھنے کا شوق ہوگیا۔سفارتکاروں اور دوسرے عہدیداروں کو یقیناً کتابیں لکھتے رہنا چاہیے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو یا تربیت ہو۔