اپوزیشن نے وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرادی

15 ستمبر 2021
گزشتہ ماہ کوئٹہ کی سیشن کورٹ نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
گزشتہ ماہ کوئٹہ کی سیشن کورٹ نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا— فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

بلوچستان اسمبلی میں سولہ اپوزیشن اراکین نے وزیراعلیٰ جام کمال خان آلیانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے تحریک پر بحث کے لیے سات دن کے اندر اسمبلی کا اجاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکریٹری کو پیش کی گئی جس میں اپوزیشن ارکان نے اپنے اقدام کی چار وجوہات بیان کی ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بجٹ سے متعلق 'متنازع' بیان پر نئی بحث چھڑ گئی

تحریک عدم اعتماد میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں انتہائی مایوسی اور بدامنی ہے جبکہ بیروزگاری اور وزیر اعلیٰ کی خراب طرز حکمرانی کی وجہ سے اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جام کمال خان آلیانی نے آئین کے آرٹیکل 37 (سماجی انصاف کو فروغ دینا اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ) اور 38 (لوگوں کی سماجی اور معاشی بہبود کو فروغ دینا) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بجٹ منظور کیا ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں غربت، محرومی اور بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔

اس سلسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈکیتی، اغوا، قتل اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے عوام بھی خود کو غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ نے بنیادی اور آئینی حقوق یقینی بنانے سے متعلق مسائل کے بارے میں انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں صوبے میں گیس، بجلی اور پانی کی قلت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کابینہ میں اختلافات شدت اختیار کرگئے، وزیر سے قلمدان واپس لے لیا گیا

تحریک عدم اعتماد پر 16 اراکین صوبائی اسمبلی نے دستخط کیے جن میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان، ثنااللہ بلوچ، نصر اللہ زہری، اصغر علی ترین، زبید علی رائکی، یونس عزیز زہری، اختر حسین لانگو، اکبر مینگل، رحیم مینگل، شام لال، احمد نوا، شکیلہ دہوار، ٹائٹس جانسن اور نصیر شاہوانی شامل ہیں۔

تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اراکین صوبائی اسمبلی نے کہا کہ جام کمال خان کو گزشتہ تین سالوں کے دوران ان کی کارکردگی کی بنیاد پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کے خلاف ایف آئی آر

گزشتہ ماہ کوئٹہ کی سیشن کورٹ نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ 18 جون کو بلوچستان اسمبلی میں پیش آنے والے واقعے پر بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور ایک پولیس افسر کے خلاف ایف آئی آر درج کرے۔

اپوزیشن کے اراکین نے وزیر اعلیٰ اور ایس ایس پی آپریشنز کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے لیے بجلی روڈ تھانے میں درخواست دائر کی تھی۔

حکومتی ارکان کو بجٹ اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے اپوزیشن اراکین نے اسمبلی کے دروازے پر تالے لگا دیے تھے جس پر پولیس اور اپوزیشن اراکین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان، ایس ایس پی کے خلاف مقدمے کیلئے عدالت میں درخواست

اپوزیشن اراکین نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے بکتر بند گاڑی کا استعمال ایک دروازے کو توڑنے کے لیے کیا جس میں جمعیت علمائے اسلام فضل عبدالواحد صدیق سے تعلق رکھنے والے رکن اور دو دیگر ایم پی اے زخمی ہوئے۔

اپوزیشن ارکان کے خلاف حکومتی اراکین کی جانب سے اسی تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی، اپوزیشن ارکان اسمبلی بشمول ایک خاتون رکن اسمبلی نے پولیس اسٹیشن پر دھرنا دیتے ہوئے پولیس ےس کہا تھا کہ وہ انہیں گرفتار کر لیں لیکن پولیس نے انہیں گرفتار کرنے سے انکار کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں