طالبان سابق افغان حکام کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین میں مصروف

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2021
ایک نجی بینک کے منیجر نے تصدیق کی کہ طالبان کے آڈیٹروں کی ایک ٹیم کو منتخب کیا گیا —فائل فوٹو: اے ایف پی
ایک نجی بینک کے منیجر نے تصدیق کی کہ طالبان کے آڈیٹروں کی ایک ٹیم کو منتخب کیا گیا —فائل فوٹو: اے ایف پی

کابل: عہدیداروں نے بتایا ہے کہ طالبان کی افغان حکومت کے سابق اعلیٰ عہدے داروں کے اکاؤنٹس کی چھان بین کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان بینک کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ تحقیقات سابق سرکاری ملازمین، وزرا اور قانون سازوں کے اثاثے اور اکاؤنٹس منجمد کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کے دوبارہ سَر اٹھانے کے بعد افغانستان کا کیا ہوگا؟

ایک نجی بینک کے منیجر نے تصدیق کی کہ طالبان کے آڈیٹروں کی ایک ٹیم کو منتخب کیا گیا تاکہ منتخب سابق سرکاری افسران کے اکاؤنٹس چیک کیے جا سکیں۔

سابق صدر اشرف غنی کی انتظامیہ میں کرپشن بڑے پیمانے پر تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ لاکھوں ڈالر کی امدادی رقم عوامی فلاح و بہبود کے بجائے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈال دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ سقوطِ کابل کے بعد اشراف غنی ابوظبی فرار ہوگئے تھے جس کے بعد کہا گیا کہ وہ اپنے ساتھ بڑی تعداد میں ڈالر لے کر گئے ہیں لیکن انہوں نے خبروں کی تردید کی تھی۔

مزیدپڑھیں: طالبان کا خوف: افغان خواتین فٹبالرز پاکستان پہنچ گئیں

کئی طالبان عہدیداروں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایک ویڈیو شائع کی جس کا مقصد سابق نائب صدر امر اللہ صالح کی پنج شیر رہائش گاہ سے برآمد ہونے والے لاکھوں نقد اور سونا دکھانا تھا۔

ویڈیو کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے تاہم ویڈیو میں طالبان جنگجوؤں کو فرش پر بیٹھے اور نقد رقم اور سونے کو گنتے ہوئے دکھایا گیا۔

ایک جنگجو نے کہا کہ انہوں نے پنج شیر میں پہلے دن ایک لاکھ ڈالر برآمد کیے اور بعد میں تلاش میں مزید 62 لاکھ ڈالر اور 18 سونے کے بسکٹ ملے۔

یہ بھی پڑھیں: چین، افغانستان کی ترقی میں کردار ادا کر سکتا ہے، ترجمان طالبان

افغانستان میں اکاؤنٹس کی چھان بین کا فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب وہاں لوگ بینک سے محض یومیہ 200 ڈالر نقد سے کم کی رقم نکال سکتے ہیں۔

طالبان سے قبل افغان حکومت میں بھی سرکاری ملازمین کو تنخواہ تاخیر سے ملتی تھی جبکہ دیہی علاقوں کے ملازمین کو ادائیگی میں کئی ماہ کی تاخیر ہوتی تھی۔

افغان شہری اپنے گھر کا سامان بیچنے پر مجبورہیں تاکہ اشیا ضروریات خریدی جا سکیں جبکہ شہر میں زیر استعمال سامان کی مارکیٹ کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے افغانستان کی فنڈنگ تک رسائی روک دی ہے جبکہ امریکا نے کابل کے لیے اپنے ذخائر میں موجود نقد رقم بھی منجمد کر دی ہے۔

افغان مرکزی بینک کے سابق قائم مقام گورنر اجمل احمدی نے گزشتہ ہفتے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ ملک کو اب تقریبا 9 ارب ڈالر امداد، قرضوں اور اثاثوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں