سندھ اسمبلی میں پی ایم ڈی اے کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور

17 ستمبر 2021
وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی سندھ اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز
وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی سندھ اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کر رہے ہیں - فوٹو:ڈان نیوز

سندھ اسمبلی میں وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کی کوششیں اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران قومی اسمبلی کی پریس گیلری کی حالیہ بندش کے خلاف ایک قرارداد اکثریت سے منظور کرلی گئی۔

زیر بحث قرارداد سندھ کے سندھ وزیر اطلاعات سعید غنی نے ایوان میں پیش کی۔

ایوان میں قرار داد پیش کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت اپنے قیام کے وقت سے ہی اداروں پر پابندیاں لگانے کی کوشش کرتی رہی ہے جنہیں آزادانہ طریقے سے کام کرنے کے لیے آئینی حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)، میڈیا اور پارلیمنٹ سمیت قومی سطح کے معزز اداروں کو نقصان پہنچانے کی سازشیں جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ایم ڈی اے کا جائزہ لینے کیلئے حکومت، میڈیا کمیٹی کے قیام پر متفق

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے آزاد ججز کو بھی اسی انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ ان صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں حکومت کے خلاف تنقید، جمہوریت کے خلاف سازشوں سے پردہ اٹھانے کی وجہ سے یا تو اغوا کیا جاتا ہے یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ کئی ایسے صحافی تھے جنہیں بے روزگار کردیا گیا تھا کیونکہ ان کے آجروں کو دھمکیاں دی گئی تھیں کہ وہ ایسے نمائندوں کو برطرف کریں ورنہ انہیں ادارے کے بند ہونے کے امکانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی نامور ٹی وی اینکرپرسن بھی اس وجہ سے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر اب نظر نہیں آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے متنازع قوانین کو منظور کرانے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں کبھی بھی قومی اسمبلی کی پریس گیلری بند نہیں ہوئی تھی، یہ آمرانہ حکومتوں کے دور میں بھی کبھی نہیں ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے خلاف صحافیوں کا احتجاج، پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا

انہوں نے کہا کہ تازہ ترین واقعے میں پریس گیلری اس دن بند کر دی گئی تھی جب صدر پاکستان کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا تھا۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی سے اسپیکر نے دعویٰ کیا کہ پریس گیلری کی بندش ان صحافیوں کے کہنے پر ہوئی ہے جو قومی اسمبلی کی کارروائی رپورٹ کرتے ہیں، اسلام آباد میں متعلقہ میڈیا پرسنز نے اسپیکر کے دعوے کو مسترد کردیا ہے اور وہ بعد میں صحافیوں کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام رہے جن کے کہنے پر بند کرنے کا حکم دیا گیا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی اے کے قیام کا اصل مقصد 'میڈیا کی تباہی' اتھارٹی قائم کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی اے کے قیام کا اقدام 18 ویں آئینی ترمیم کی روح کے بھی خلاف ہے۔

وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد پرنٹ میڈیا انڈسٹری صوبے کے اختیار میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس ایک ہی وقت میں الیکٹرانک میڈیا، سوشل اور پرنٹ میڈیا کو سنبھالنے کے لیے ایک ہی ریگولیٹری اور کنٹرول اتھارٹی قائم کرنے کا آئینی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ ایک درست اقدام تھا تو اسے میڈیا کے نمائندوں کی کم از کم ایک نمائندہ تنظیم کی حمایت حاصل ہونی چاہیے تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحافیوں کی ایسی تمام نمائندہ تنظیمیں اس تجویز کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا

سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحادی شراکت داروں سمیت تقریبا تمام سیاسی جماعتیں پی ایم ڈی اے کے قیام کی تجویز کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں اور میڈیا پرسنز کی مختلف نمائندہ تنظیموں کی احتجاجی مہم میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2023 میں ملک میں آئندہ انتخابات میں دھاندلی کی سازش رچائی گئی ہے اور اس دن تک عدلیہ اور میڈیا سمیت کوئی بھی جمہوری نظام کے خلاف اس طرح کی بدنیتی پر مبنی کوششوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکے گا۔

سندھ کے وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسی طریقے سے الیکشن کمیشن کے خلاف ایک نیا محاذ شروع کیا گیا تاکہ اس کی آواز کو بھی دبایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری تقسیم میں اہم شراکت دار ہیں کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے قربانیاں دی ہیں، فوجی آمروں کے خلاف لڑے ہیں، انہیں کوڑے بھی لگائے گئے، قید بھی کیا گیا تھا اور پھانسی پر بھی چڑھایا گیا۔

سعید غنی نے وفاقی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ جنرل مشرف، جنرل ضیا یا جنرل یحییٰ خان کی حکومت نہیں ہے کیونکہ موجودہ حکومت میں سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن خاموش نہیں رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم صرف اس اقدام کی مذمت کرنے تک محدود نہیں رہیں گے اور ہم اس طرح کے اقدام کی عملی طور پر مزاحمت کریں گے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں