حکومت، وزیراعظم عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات بتانے سے گریزاں

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2021
ابرار خالد نے اپنی درخواست میں وزیراعظم عمران خان کو موصول ہونے والے تحائف کی تفصیلات مانگی تھیں—تصویر: عمران خان فیس بک
ابرار خالد نے اپنی درخواست میں وزیراعظم عمران خان کو موصول ہونے والے تحائف کی تفصیلات مانگی تھیں—تصویر: عمران خان فیس بک

کابینہ ڈویژن نے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جس میں اگست 2018 سے وزیراعظم عمران خان کو پیش کیے گئے تحائف کی تفصیلات طلب کی گئی ہیں۔

ساتھ ہی ڈویژن نے یہ دعویٰ کیا کہ توشہ خانہ سے متعلق کوئی بھی معلومات ظاہر کرنے سے بین الاقوامی تعلقات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ ڈویژن نے اسلام آباد ہائیکورٹ (آئی ایچ سی) میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا کہ پی آئی سی کا حکم غیر قانونی اور بغیر قانونی اختیار کا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کی جائیداد نیلام کرنے کا حکم

مذکورہ درخواست میں حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ سے متعلق کوئی بھی معلومات ظاہر کرنے سے بین الاقوامی تعلقات خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔

حالانکہ 2 بڑی جماعتوں کے قائدین کے خلاف توشہ خانہ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر ہی ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

قبل ازیں پاکستان انفارمیشن نے اس معاملے پر ایک درخواست قبول کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن کو ہدایت کی تھی کہ غیر ملکی سربراہان مملکت، حکومتوں کے سربراہ اور دیگر غیر ملکی معززین کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو موصول ہونے والے تحائف کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کریں، ساتھ ہی وزیراعظم کے اپنے پاس رکھے ہر تحفے کی تفصیل/وضاحت اور وہ قواعد جن کے تحت انہوں نے تحائف وصول کیے اور اپنے پاس رکھے بتائے جائیں۔

مزید پڑھیں:توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کی طلبی کا اشتہار جاری، زرداری کے وارنٹ گرفتاری نیب کو ارسال

کابینہ ڈویژن کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ مطلوبہ معلومات 10 ورکنگ روز کے اندر شیئر کریں اور اسے سرکاری ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کریں۔

ابرار خالد نے اپنی درخواست میں پی آئی سی سے وزیراعظم عمران خان کو اب تک موصول ہونے والے تحائف کے بارے میں تفصیلات مانگی تھیں۔

تاہم کابینہ ڈویژن نے درخواست کی مخالفت کی اور پی آئی سی کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ 2017 کے معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

چنانچہ 4 اپریل 1993 کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں توشہ خانہ کی تفصیلات کو 'خفیہ/مخفی' قرار دیا گیا تھا، ڈویژن نے استدلال کیا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت یہ معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔

ابتدائی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پی آئی سی اور درخواست گزار ابرار خالد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا۔

یہ بھی پڑھیں؛ لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانہ سے تحائف کی نیلامی روکنے کا حکم دے دیا

اس موقع پر کابینہ ڈویژن کی جانب سے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عتیق الرحمٰن صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔

اپنے حکم نامے میں پی آئی سی نے کہا تھا کہ کابینہ ڈویژن نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کی دفعہ 7 (ف) شق 16 کا حوالہ دیتے ہوئے مطلوبہ معلومات تک رسائی دینے سے انکار کیا، حالانکہ درخواست ان قوانین کے بارے میں معلومات کی تھیں، جن کے تحت غیر ملکی معززین سے موصول ہونے والے تحائف وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں اور انہیں ان سیکشنز کے تحت چھوٹ دی گئی ہے۔

پی آئی سی کا کہنا تھا کہ یہ 'مصدقہ معلومات نہیں لیکن مصدقہ معلومات کی عدم موجودگی [جو] 'میڈیا سنسنی' میں حصہ ڈالتی ہے اور اس کے نتیجے میں 'غیر ضروری کہانیاں' جنم لیتی ہیں اور شہریوں اور سرکاری اداروں کے مابین اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا ہے۔

مصدقہ درخواست کردہ معلومات سرکاری عہدیداران کی جانب سے توشہ خانہ میں تحفوں کی رپورٹنگ اور ان کو رکھنے کی قیمت اور کون سے منتخب نمائندے یا عوامی عہدیدار نے کس قیمت پر تحفہ رکھا اس کے بارے میں افواہوں کو دور کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں