پاکستان اور ایران، افغانستان کے داخلی اُمور میں مداخلت نہیں کررہے، ذبیح اللہ مجاہد

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2021
ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی شرط پر برہمی کا اظہار  کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی شرط پر برہمی کا اظہار کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

طالبان حکومت کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران، افغانستان کے داخلی اُمور میں مداخلت نہیں کر رہے ہیں اور ہم ملک کی بہتری کے لیے ان ممالک کے مشوروں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

کابل میں عبوری کابینہ میں توسیع کے اعلان کے سلسلے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور کچھ دیگر ممالک کے افغانستان کے ساتھ سیاسی رابطے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ترجمان طالبان حکومت نے امن، استحکام اور جامع افغان حکومت کے لیے وزیراعظم عمران خان کی کوششوں کو سراہا۔

ان کا کہنا تھا کہ گروپ نے افغانستان کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے مثبت بیانات کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں جامع حکومت کیلئے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے، وزیر اعظم

رپورٹ کے مطابق ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان، قطر، چین کے فعال کردار کو تسلیم کیا اور اپنا کردار ادا کرنے کے خواہشمند دیگر ممالک کا خیرمقدم کیا۔

دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اردو سروس کی رپورٹ کے مطابق ترجمان طالبان کا مزید کہنا تھا کہ سفارتی سطح پر ایسے ادارے موجود ہیں جو چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور اور وہ اس حق میں نہیں ہیں کہ کہ ہمارے داخلی کاموں میں مداخلت کریں یا داخلی سطح پر رکاوٹیں پیدا کریں بلکہ یہ ممالک خیر خواہی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے خیر خواہی کے مشوروں کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ چند روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے افغانستان میں مختلف برادریوں کی نمائندگی کرنے والی جامع حکومت کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ '40 برس کی لڑائی کے بعد ان دھڑوں کی اقتدار میں شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہوگی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے'۔

طالبان کی کابینہ میں توسیع، خواتین شمولیت سے محروم

طالبان نے نائب وزرا نامزد کر کے اپنی عبوری کابینہ میں توسیع کی ہے لیکن کابینہ کے پہلے اعلان کے بعد ہونے والی بین الاقوامی تنقید کے باجود کسی خاتون کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق عالمی برادری نے خبردار کیا تھا کہ وہ طالبان کو ان کے اقدامات سے پرکھے گی اور طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ان کے خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے منسلک ہوگا۔

نوے کی دہائی کے آخر میں افغانستان کی اپنی سابقہ حکومت کے دوران طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں، کام اور عوامی زندگی میں شمولیت سے روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ملا حسن اخوند وزیراعظم اور ملا عبدالغنی ان کے نائب ہوں گے، طالبان کا عبوری حکومت کا اعلان

تاہم طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کے روز کی جانے والی پریس کانفرنس میں کابینہ میں نئی شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس میں نسلی اقلیتوں مثلاً ہزارہ کے اراکین بھی شامل ہیں اور ہوسکتا ہے بعد میں خواتین کو بھی شامل کرلیا جائے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی شرط پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ ہماری حکومت کو تسلیم کرے اور دیگر ممالک بشمول یورپی، ایشیائی اور مسلمان ممالک ہم سے سفارتی تعلقات قائم کریں'۔

طالبان نے اپنی موجودہ کابینہ کو عبوری حکومت قرار دیا ہے جس کے مطلب یہ ہے کہ اس میں تبدیلی اب بھی ممکن ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا کبھی انتخابات کروائے جائیں گے۔

لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا معاملہ

ذبیح اللہ مجاہد سے خواتین اور لڑکیوں پر نافذ حالیہ پابندیوں کے بارے میں سوال کیا گیا جس میں چھٹی سے 12ویں جماعت کی طالبات کو فی الوقت اسکول جانے کی اجازت نہ دینا شامل ہے۔

جس پر انہوں نے کہا کہ یہ عارضی فیصلہ ہے، اس بات کا اعلان جلد کیا جائے گا کہ وہ کب اسکول جاسکتی ہیں، انہیں اسکولز جانے کی اجازت دینے کے لیے منصوبہ تیار کیا جارہا ہے تاہم اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

مزید پڑھیں: 'ہم متحد ہیں'، افغان طالبان نے قیادت میں اختلافات کی تردید کردی

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر افغانستان میں چھٹی سے بارہویں جماعت کے طلبا کا تعلیمی سلسلہ بحال کرنے کا اعلان ہوا تھا۔

ترجمان طالبان حکومت نے وزارت امور خواتین کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کی جسے گزشتہ ہفتے وزارت 'امر بالمعروف و نہی عن المنکر' میں تبدیل کردیا گیا تھا یعنی نیکی کا حکم، دینا اور برائی سے روکنا۔

کابینہ میں مزید شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ عہدے امارات کے کام کرنے کے لیے اہم ہیں۔

'تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے فنڈز ہیں لیکن ان پر کام میں وقت لگ رہا ہے'

سرکاری ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور مہنگائی پر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہمارے پاس فنڈز موجود ہیں لیکن ان پر کام کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مقامی ریونیو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے لیکن ہم افغان اثاثوں کو غیر منجمد کرنے کے لیے تمام سفارتی ذرائع استعمال کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: وزارت امورِ خواتین ’نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے‘ میں تبدیل

میڈیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'میڈیا اہم ہے اور ہم اس کی حمایت کرتے ہیں، صوبوں میں کچھ مسائل ہیں جنہیں دور کیا جارہا ہے'۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کابل ایئرپورٹ کے مرکزی ریڈار کو بری طرح نقصان پہنچایا گیا ہے جس کی مرمت کے بعد بین الاقوامی کمرشل پروازیں بحال ہوجائیں گی۔

طالبان کی عبوری کابینہ میں شامل ہونے والے نئے اراکین
  • حاجی نورالدین عزیزی، قائم مقام وزیر تجارت

  • حاجی محمد بشیر، قائم مقام نائب وزیر تجارت

  • حاجی محمد عظیم سلطان زادہ، قائم مقام نائب وزیر تجارت

  • قلندر عباد، قائم مقام وزیر صحت

  • عبدالباری عمر، نائب وزیر صحت

  • محمد حسن غیاثی، قائم مقام نائب وزیر صحت

  • ملا محمد ابراہیم، نائب وزیر داخلہ برائے امور سلامتی

  • ملا عبدالقیوم ذاکر، نائب وزیر دفاع

  • نذر محمد مطمئن، نیشنل اولمپک کمیٹی کے قائم مقام سربراہ

  • مجیب الرحمٰن عمر، نائب وزیر توانائی و بجلی

  • غلام غوث، نائب وزیر ڈیزاسٹر مینجمنٹ

  • محمد فقیر، سینٹرل اسٹیٹیکس اتھارٹی کے قائم مقام چیئرمین

  • حاجی گل محمد، نائب وزیر سرحدی و قبائلی امور

  • گل زرین کوچے، نائب وزیر مہاجرین اور ان کی واپسی کے امور

  • لطف اللہ خیر خواہ، نائب وزیراعلیٰ تعلیم

  • نجیب اللہ، محکمہ جوہری توانائی کے ڈائریکٹر

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں