آئی بی اے کراچی کے کیمپس میں ہراسانی کے واقعہ کو اجاگر کرنے والا طالبعلم بے دخل

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2021
—فوٹو: بشکریہ جبران ناصر انسٹاگرام اکاؤنٹ
—فوٹو: بشکریہ جبران ناصر انسٹاگرام اکاؤنٹ

انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی نے ایسے طالبعلم کو بے دخل کردیا جس نے یونیورسٹی میں مبینہ طور پر ہراسانی کے واقعے کو دیکھا اور عوامی طور پر اس مسئلے کو اجاگر کیا تھا اور انتظامیہ کے ساتھ باضابطہ شکایت درج کرانے میں متاثرہ خاتون کی مدد کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی بی اے کے فیس بک پیج پر شیئر کیے گئے بیان کے مطابق محمد جبرائیل کو انسٹی ٹیوٹ کے قائم کردہ ’درست طریقے‘ استعمال کرنے کے بجائے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے سوشل میڈیا کا انتخاب کرنے پر سزا سنائی گئی۔

مزید پڑھیں: جامعہ کراچی کے پروفیسر کو خاتون استاد کو ہراساں کرنے پر 8 سال قید کی سزا

اس میں کہا گیا کہ طالب علم کو ’اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنے کے لیے کئی مواقع دیے گئے اور کئی مرتبہ مشاورت کی گئی تاکہ وہ اپنے اعمال کا ازسر نو جائزہ لے سکے، ایسا کرنے میں ناکامی کے بعد ڈسپلنری کمیٹی نے طالب علم کو نکالنے کا فیصلہ کیا کیونکہ آئی بی اے کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے لیے صفر عدم برداشت کی پالیسی ہے‘۔

جبرائیل کے خلاف انضباطی کارروائی شروع کی گئی جب انہوں نے فیس بک پر ہراسانی کے واقعے کے بارے میں ایک پوسٹ شیئر کی، انہوں نے 25 اگست کو آئی بی اے کے فنانس ڈپارٹمنٹ میں خود وہ واقعہ دیکھا تھا، جس میں انہوں نے ڈپارٹمنٹ کے منیجر کو ایک خاتون ملازم پر چیختے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ ’میں تمہیں ساری رات یہاں بیھٹا کر رکھوں گا‘۔

بعدازاں آئی بی اے کے عہدیدار کے خلاف پوسٹ کو ہٹانے سے متعلق مطالبے سے طالبعلم نے انکار کر دیا تھا۔

اپنے بیان میں آئی بی اے نے کہا کہ ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ آئی بی اے انتظامیہ نے (جبرائیل) کی جانب سے ادارے کے اندر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعے کو اجاگر کرنے کی تعریف کی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی میں طالبہ کو 'ہراساں' کرنے کی نئی انکوائری

انہوں نے کہا کہ ’تاہم ہمیں اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ مبینہ طور پر ہراسانی کے واقعہ کو اجاگر کرنے والے طالب علم کا عمل نظم و ضبط کے خلاف تھا، ادارے کی انسداد ہراسانی کمیٹی آئی بی اے اور ایچ ای سی کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار کے مطابق کیس کی تحقیقات کر رہی ہے، ہم سننے کی بنیاد پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ہمیشہ تحقیق کرتے ہیں‘۔

آئی بی اے کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا اور طلبہ برادری نے شدید ردعمل کا اظہار کیا، لوگوں نے جبرائیل کے حق میں مؤقف اختیار کیا۔

کراچی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے کہا کہ جس معاشرے میں خواتین سے ان کے اعمال کے لیے بار بار سوال کیا جاتا ہے ہم صرف ہراساں کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رہیں جہاں وہ اپنے فعال میں آزاد ہوں گے۔

جبرائیل کے وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر نے کہا کہ شرم کی بات ہے کہ (آئی بی اے کراچی) نے ایک طالب علم کو محض اس لیے بے دخل کردیا کیونکہ انہوں نے ہراسانی کے واقعہ کو اجاگر کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہ طالب علم نہیں جس نے آئی بی اے کو بدنام کیا، یہ آئی بی اے خود ہے جو اپنے عمل سے ادارے کے کردار پر سوال اٹھا رہا ہے، سچ کہنے کی پاداش پر ایک طالب علم کا مستقبل برباد ہوگیا ہے۔

صحافی ضرار کھوڑو نے اس فیصلے کو ’آئی بی اے کی جانب سے ایک انتہائی زیادتی پر مبنی رد عمل قرار دیا جسے درست ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ’اس طرح کے اقدامات صرف اور صرف جوابی ردعمل کا باعث بنیں گے‘۔

علاوہ ازیں بے دخل کیے گئے طالب علم نے کہا کہ وہ معافی نہیں مانگیں گے، جبرائیل نے آئی بی اے سے ان کے بے دخل کیے جانے سے متعلق خبر کی بھی تصدیق کی۔

منگل کی رات ایک فیس بک پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’آج کے ڈی سی کے رویے سے اندازہ ہوا ہے کہ وہ مجھے نکال دیں گے، میں جانتا ہوں کہ لوگ میرے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے جب وہ مجھے نکال دیں گے کیونکہ ہر کوئی اپنے مستقبل اور فلاح و بہبود کی فکر کرے گا، پھر بھی، میں اپنے تمام حواس کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر میری جان بھی جائے تب بھی معافی نہیں مانگوں گا، میں منافق نہیں ہو سکتا، ایسا شخص جس کے قول و فعل میں فرق ہو اور وہ شخص جو اس کی حمایت کرنے والے لوگوں کی تعداد کو دیکھ کر فیصلہ کرے، میں وہ شخص نہیں بن سکتا‘۔

آئی بی اے کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے مراسلے میں کہا گیا کہ اگر طالبعلم کو فیصلے کے بارے میں کوئی تحفظات ہیں تو وہ تحریری طور پر رجسٹرار آفس اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر آفس میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست داخل کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: جامعہ کراچی ہراساں کیس: 6 کم عمر لڑکوں کی ضمانت منظور

خیبر پختونخوا کے لکی مروت سے تعلق رکھنے والے جبرائیل مکمل اسکالرشپ پر تھے اور ایک بہترین طالب علم کا درجہ رکھتے ہیں، وہ دو ماہ بعد گریجویٹ ہونے والے تھے۔

طالب علم نے کہا کہ انہیں آئی بی اے ہاسٹل سے اپنا سامان اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

انضباطی کمیٹی نے محمد جبرائیل کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے واقعے کی تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا مجرم قرار دیا۔

بیان میں کہا گیا کہ ’کسی بھی عوامی پلیٹ فارم پر سیاق و سباق کے مکمل علم کے بغیر کسی مبینہ واقعہ کے بارے میں تفصیلات شیئر کرنا آئی بی اے کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ جبرائیل نے ’انسٹی ٹیوٹ، اس کے فنانس ڈپارٹمنٹ اور ملازمین کے علاوہ سینئر پروفیسرز کو مختلف فورمز پر بدنام کیا‘ اور ساتھ ہی ’طلبہ کو احتجاج کے لیے اکسایا اور انسٹی ٹیوٹ کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی اور طلبا اور آئی بی اے انتظامیہ کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا، جس کی وجہ سے انتظامیہ کے اہلکاروں کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Legal Sep 30, 2021 12:30pm
Brave Decision of IBA - Appreciated. Our Youth is to be trained that one needs to approach right forum instead of bringing anything to media trial. If a boss scolds any subordinate (man or woman) and say that he/she would have to sit all the night to complete it -there is no sexual harrassment in it - Even then if the student saw any harassment in this he should have complained to the forum not to blame over social platform just to advertise his own self. Harassment is a serious thing if scolding a woman is harassment then people will stop employing women which is not in the interest of anyone.