افغانستان کا حکمران کون ہے؟ جنگی جرائم کی تحقیقات سے قبل عالمی عدالت کا استفسار

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2021
ججز نے کہا کہ کریم خان کا دفتر اور نہ ہی عدالت کسی رکن ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلیوں کے بارے میں مفروضے بنا سکتی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز
ججز نے کہا کہ کریم خان کا دفتر اور نہ ہی عدالت کسی رکن ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلیوں کے بارے میں مفروضے بنا سکتی ہے—فائل فوٹو: رائٹرز

دی ہیگ: بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے افغانستان میں ہونے والے سنگین جرائم کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کے لیے استغاثہ کی درخواست دینے یا نہ دینا کا فیصلہ کرنے سے قبل اس بات کی وضاحت طلب کی ہے کہ افغانستان میں حکمران کون ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہیگ میں قائم ٹربیونل کے نئے پراسیکیوٹر نے گزشتہ ہفتے افغانستان میں تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کے لیے کہا کہ وہ طالبان اور عسکریت پسند اسلامک اسٹیٹ خراسان گروپ پر توجہ مرکوز کریں گے۔

مزیدپڑھیں: جنگی جرائم کی تحقیقات: 'توجہ امریکا کے بجائے طالبان اور داعش پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں'

گزشتہ برس آئی سی سی نے کابل میں حالیہ مہینوں میں معزول ہونے والی حکومت کے کہنے کے بعد انکوائری روک دی تھی کہ وہ خود جنگی جرائم کے الزامات کی تحقیقات کرنے کی کوشش کرے گی۔

آئی سی سی کے پری ٹرائل ججوں نے کہا کہ چیمبر سمجھتا ہے کہ یہ ایک باخبر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہےاور اس وقت افغانستان کی نمائندگی کرنے والے حکام کی شناخت کے حوالے سے قابل اعتماد اور تازہ ترین معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ججز نے کہا کہ پری ٹرائل چیمبر نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور عدالت کی ریاستوں کی جماعتوں کے بیورو سے درخواست کی کہ وہ اس وقت افغانستان کی نمائندگی کرنے والے حکام کی شناخت کے بارے میں معلومات جمع کرائیں۔

چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے مؤقف اختیار کیا کہ اگست میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے اور عدالتی سرگرمی میں غیرمعمولی تبدیلیاں آئی ہیں، افغانستان کے حکام اگست 2021 سے قبل ہونے والے واقعات کی تحقیقات میں آمادگی کا اظہار کرسکتے تھے لیکن اب وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں جنگی جرائم کی تحقیقات پر امریکا نے آئی سی سی پراسیکیوٹر کو بلیک لسٹ کردیا

انہوں نے اگست میں کہا تھا کہ وہ افغانستان سے آنے والی رپورٹوں سے پریشان ہیں جو کہ ’بین الاقوامی انسانی قانون‘ کی خلاف ورزیوں کے مترادف ہے کیونکہ ہزاروں لوگ طالبان کے ظلم و ستم کے خوف سے ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

تاہم ججز نے کہا کہ کریم خان کا دفتر اور نہ ہی عدالت کسی رکن ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلیوں کے بارے میں مفروضے بنا سکتی ہے۔

عالمی برادری تاحال مخمصے کا شکار ہے کہ آیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہیں۔

یہ بحث گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھل کر سامنے آئی جہاں طالبان نے افغانستان کی جانب سے بات کرنے کو کہا تھا لیکن معزول حکومت کے سفیر نے پھر بھی اپنے ملک کی نمائندگی کا دعویٰ کیا۔

مزیدپڑھیں: پومپیو کی افغانستان میں جرائم کی تحقیقات کیلئےعالمی عدالت کے حکم پر تنقید

دوسری جانب یورپی یونین کے ہوم افیئرز کمشنر یلوا جوہنسن نے خبردار کیا کہ یورپ کو افغانستان سے ہجرت سے پیدا ہونے والے سیکیورٹی خطرات کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

انہوں نے لکسمبرگ میں اپنے یورپی یونین کے ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں مجھے یہ کہنا چاہیے کہ الرٹ کی سطح بہت زیادہ نہیں ہے، ہمیں واقعی مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں