سپریم کورٹ: سعد رضوی کی رہائی کے حکم کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر

11 اکتوبر 2021
حکومت پنجاب نے درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سعد رضوی کو رہا کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے — فائل فوٹو / فیس بک
حکومت پنجاب نے درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سعد رضوی کو رہا کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے — فائل فوٹو / فیس بک

سپریم کورٹ نے حکومتِ پنجاب کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کے حکم کے خلاف دائر کی گئی درخواست لاہور رجسٹری میں سماعت کے لیے مقرر کردی۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری سے جاری کاز لسٹ کے مطابق جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دو رکنی بینچ صبح 9 بجے حکومت پنجاب کی درخواست پر سماعت کرے گا۔

قبل ازیں حکومت پنجاب نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی کو رہا کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

صوبائی حکومت نے درخواست میں سعد رضوی کے چچا امیر حسین کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے سعد رضوی کو رہا کرنے کے حکم میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

درخواست میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ کو کیس سے متعلق تفصیلی ریکارڈ بھی فراہم کیا گیا تھا جبکہ سعد رضوی کو نظر بند کرنے کا حکومتی فیصلہ قانونی طور پر درست ہے۔

حکومت پنجاب نے درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سعد رضوی کو رہا کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی رہائی کا حکم

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے یکم اکتوبر کو علامہ سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالت عالیہ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے سعد رضوی کے چچا امیر حسین کی درخواست پر فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت میں سعد رضوی کے چچا کے وکیل برہان معظم ملک نے دلائل دیے جبکہ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے وکلا نے درخواست کی مخالفت کی تھی۔

بعد ازاں 9 اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر لاہور نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

ڈپٹی کمشنر کے حکم میں ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کے وفاقی جائزہ بورڈ کے حراست کے حوالے سے لیے گئے پہلے دو فیصلوں کا حوالہ بھی دیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع کے لیے بورڈ کے سامنے 29 ستمبر کو ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور بورڈ نے 2 اکتوبر کو ٹی ایل پی سربراہ کی حراست کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کی تھی۔

اس سلسلے میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ 9 اکتوبر کو وفاقی جائزہ بورڈ کی میٹنگ میں اٹھایا گیا اور کیس کو نمٹا دیا گیا۔

9 اکتوبر کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں جائزہ بورڈ نے پنجاب حکومت کی سعد رضوی کی نظر بندی میں توسیع کی درخواست پر سماعت کی جس میں سوال کیا گیا تھا کہ جب لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی ٹی ایل پی سربراہ کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے تو کس بنیاد پر توسیع مانگی گئی ہے۔

اس کے بعد پنجاب حکومت نے اپنی درخواست واپس لے لی تھی۔

رضوی کی نظر بندی ابتدائی طور پر 10 جولائی کو ختم ہونے والی تھی لیکن اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے ایک جائزہ بورڈ نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی رضوی کی نظر بندی میں توسیع کی درخواست مسترد کردی تھی، اس حوالے سے 8 جولائی کو اس مقدمے کا تفصیلی حکم جاری کیا گیا تھا جس میں مشاہدہ کیا گیا تھا کہ اگر سعد رضوی کسی اور مقدمے میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی نظر بندی کالعدم قرار دے دی

تاہم اس وقت ڈپٹی کمشنر لاہور نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 11-ای ای ای (مشتبہ افراد کو گرفتار اور حراست میں لینے کے اختیارات) کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اور سعد رضوی کو مزید 90 دنوں کے لیے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

اس کے بعد سعد رضوی کے چچا نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سعد رضوی کی نظربندی میں توسیع کا حکومتی فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے اور حکومت نے انہیں حراست میں لینے کے بعد 14 فوجداری مقدمات میں نامزد کیا ہے۔

سعد رضوی کی گرفتاری

خیال رہے کہ سعد رضوی کو ان کی جماعت کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے سلسلے میں ملک بھر میں دھرنوں کے بعد 12 اپریل 2021 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

دھرنوں کے دوران مظاہرین مشتعل ہوگئے تھے اور انہوں نے پولیس پر حملہ کردیا تھا۔

گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر 2020 کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہ کرنے پر دوبارہ احتجاج سے خبردار کردیا

بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے 20 اپریل کو ملک گیر مظاہرے کیے تھے جس کے بعد سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کے سبب حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

واضح رہے کہ نظر ثانی بورڈ نے 2 جولائی کو سعد رضوی کی نظربندی میں توسیع کے لیے حکومتی درخواست مسترد کر دی تھی۔

توسیع نہ ہونے پر سعد رضوی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت 10 جولائی کو دوبارہ نظر بند کر دیا گیا تھا جس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں