کے الیکٹرک مہنگی بجلی بنا رہی ہے، نیپرا

اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2021
ریگولیٹر کے مطابق بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ کے الیکٹرک کا سسٹم ہے — فائل فوٹو: کے ای ویب سائٹ
ریگولیٹر کے مطابق بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ کے الیکٹرک کا سسٹم ہے — فائل فوٹو: کے ای ویب سائٹ

شعبہ توانائی کے ریگولیٹر کے مطابق سال 21-2020 میں بجلی فراہم کرنے والے واحد نجی ادارے کے الیکٹرک کی بجلی کی قیمت ملک بھر کے نظام سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) سے زیادہ رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کا شعبہ توانائی کے حوالے سے حالیہ رپورٹ میں کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے پر مرتب ان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کے الیکٹرک کو درآمد شدہ مہنگی ایل این جی کے برخلاف ایندھن کے مقامی ریٹ پر وافر مقدار میں گیس سپلائی کی جارہی ہے۔

گزشتہ مالی سال کے دوران ملک بھر میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 21 ہزار 206 گیگاواٹ فی گھنٹہ بجلی فروخت ہوئی جس میں کے الیکٹرک کا حصہ 13.25 فیصد یا 16 ہزار 69 گیگاواٹ فی گھنٹہ تھا۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک کی فروخت پر تعطل کو ختم کرنے کیلئے سعودی ٹائیکون کا دورہِ پاکستان

کے الیکٹرک نے اپنے پلانٹس سے 10 ہزار 185 گیگاواٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کی جبکہ دیگر 9 ہزار 300 گیگاواٹ بجلی آزاد پاور پلانٹس (آئی پی پی) اور نیشنل گرڈ سے خریدی، سال 21-2020 میں اس کی ترسیل و تقسیم نقصانات 17.5 فیصد رہے۔

کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘قومی گرڈ کا بڑا حصہ (تقریباً ایک تہائی) ہائیڈرو پاور وسائل پر مشتمل ہے جبکہ کے ای قدرتی گیس، آر ایل این جی اور فرنس آئل استعمال کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘نیشنل گرڈ اور کے الیکٹرک درمیان بجلی پیدا کرنے کی قیمت میں فرق کی مختلف وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ کے الیکٹرک، پاکستان میں یکساں ٹیرف پالیسی کے تحت جغرافیائی سطح پر فرق کیے بغیر صارفین سے یکساں قیمت وصول کر رہا ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ پیداوار کی لاگت اور صارفین کو فروخت کی قیمت کے درمیان فرق سے سبسڈیز اور سرچارجز کے ذریعے نمٹا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی والے کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا خمیازہ بھگت رہے، ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے'

نیپرا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کاروں کے درمیان بجلی کی خرید و فروخت کے لیے سہولیات فراہم کرنے والے مارکیٹ آپریٹر ’سی پی پی اے‘، کے الیکٹرک کو ’وافر مقدار‘ میں اس ریٹ پر بجلی فراہم کر رہا ہے جو الیکٹرک کمپنی کی اپنی پیداواری کی لاگت اور خریداری کے ریٹ سے کم ہے۔

ریگولیٹر کے مطابق بجلی کی پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ کے الیکٹرک کا سسٹم ہے جس میں ان کے نو تعمیر شدہ گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس اور فرنس آئی/آر ایل این جی سے چلنے والے اسٹیم ٹربائن تھرمل پور پلانٹس شامل ہیں۔

اس کے علاوہ ریگولیٹر نے رپورٹ میں کے الیکٹرک کی بجلی کی اضافی لاگت کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ قیمتیں مہنگے ترین ایندھن ہائی اسپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر مشتمل توانائی پلانٹس سے بجلی خریدنے کا نتیجہ ہے۔

سال 21-2020 میں کے الیکٹرک کے ‘اپنے سسٹم’ میں ایندھن کے اخراجات اوسطاً 12 روپے 41 پیسے پر فی کلو واٹ گھنٹہ تھے، اس کے برعکس اسی سال سی پی پی اے سسٹم میں ایندھن کے اخراجات 3 روپے 24 پیسے سے لے کر 6 روپے 6 پیسے فی یونٹ کے درمیان رہے لیکن ان اعداد و شمار میں کپیسٹی پیمنٹس شامل نہیں ہیں جسے شامل کرکے بجلی مجموعی پیداواری لاگت بنتی ہے۔

تاہم ایندھن کے اخراجات کو جمع کر کے مجموعی پیداواری اخراجات کو مقرر کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کو تین ماہ میں 3.64 روپے فی یونٹ اضافی چارج کرنے کی اجازت

نیپرا نے کہا کہ ’کے الیکٹرک‘ مہنگے پلانٹس سے بجلی پیدا اور خرید رہا ہے، حالانکہ ’سی پی پی اے‘ سسٹم میں کم قیمت ٹیک اور پے جنریشن کپیسٹی غیر استعمال شدہ یا کم استعمال ہورہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘کے الیکٹرک کی جانب سے سی پی پی اے سے کم داموں میں بجلی نہ خریدنے کی ایک اہم وجہ ترسیل کا ناکافی نظام بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک اور نیشنل گرڈ کے درمیان ترسیل کا ناکافی نظام ہونے کی وجہ سے دونوں نظام کے درمیان ملک کے دستیاب وسائل کو استعمال کرتے ہوئے دوطرفہ بجلی کی تجارت میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک، نیشنل گرڈ سے تقریباً 1100 میگاواٹ بجلی درآمد کر رہی ہے اور آئندہ سالوں میں اس میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’کے الیکٹرک کا 900 میگاواٹ کا آر ایل این جی پر مشتمل بن قاسم پاور اسٹیشن تھری پر قابل تجدید توانائی سے بجلی کی پیداواری لاگت کم ہوگی'۔

تبصرے (0) بند ہیں